شرعی اصطلاح میں بدعت کی تعریف اور چند امور کی وضاحت

شرعی اصطلاح میں بدعت کی تعریف اور چند امور کی وضاحت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شریعت کی اصطلاح میں بدعت کی کیا تعریف ہے؟ اور مندرجہ ذیل امور بدعت ہیں کہ نہیں؟
(۱)محفل میلاد اور نعت (۲) ختم غوثیہ (۳)ختم بخاری شریف(۴) سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)کانفرنس(۵) چہلم، قل وغیرہ (۶) فرض نماز کے بعد دعا مانگنا(۷)سلسلہ طریقت و شریعت (۸)برسی اور عرس وغیرہ؟
ازراہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائیں۔

جواب

بدعت کہتے ہیں ایسا کام کرنا جس کی اصل کتاب وسنت اور قرون مشہود لہا بالخیر میں نہ ہو، اور اس کو دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے۔
۱…مروجہ محفل میلاد ونعت نبی کریمﷺ اور سلف صالحین سے ثابت نہیں، اس لیے یہ بدعت ہے۔
۲…ختم غوثیہ کرنا او ریہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ ہر جگہ حاضر وناظر اور عالم الغیب ہیں شرعاً کسی طرح جائز نہیں، ایسا عقیدہ رکھنا حرام بلکہ شرک ہے۔
۳…ختم بخاری کی تقریب کتاب کے ختم ہونے پر ہوتی ہے، نہ اس کو لازم سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے کسی دن کی تعیین کا التزام ہوتا ہے، اس لیے تقریب ختم بخاری منعقد کرنا درست ہے۔
۴…سیر ت النبیﷺ کانفرنس اگر محفل میلاد کی خرافات سے خالی ہو اور کسی دن وغیرہ کی تعین کا التزام نہ ہو، تو اس کا انعقاد کرنا درست ہے۔
۵…چہلم اور قل وغیرہ میں میت کے ہاں سے کھانا کھلایا جاتا ہے، اس لیے اس کا انتظام والتزام ایک نہایت قبیح فعل اور بدعت ہے، اس سے اجتناب لازم اور ضروری ہے۔
۶…فرائض کے بعد سنتوں سے پہلے دعا مانگنا اور ادعیہ مأثورہ کی مقدار تک دعائیں پڑھنا اور ذکر کرنا جائز ہے، بلکہ اس وقت دعا مانگنا افضل ہے اور اس دعا میں مقبولیت کی امید زیادہ ہوتی ہے۔
۷…طریقت وسلوک میں مرید شیخ سے قرآن ونست کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کر کے بیعت ہوجاتا ہے اور بیعت ایک مستحب عمل ہے۔
۸…قبروں کی زیارت کے لیے دن مقرر کرنا اور معین دن وہاں اجتماع کرنا ہرگز شریعت سے ثابت نہیں، اس لیے عرس منعقد کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح برسی منانا بھی شریعت سے ثابت نہیں ۔
لما في مرقاۃ المفاتیح:
’’عن عائشۃ رضي اللہ عنہا ،قالت:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من أحدث في أمرنا ھذا مالیس منہ فھو رد‘‘.(کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، رقم الحدیث:140، دارالکتب).
وفي المدخل:
’’ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع-مع اعتقادھم أن ذلک من أکبر العبادات وإظھار الشعائر- ما یفعلونہ في شھر ربیع الاول من مولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ‘‘.(فصل في المولد،5/2،مکتبہ العصریۃ)
وفي البحر:
’’قال علماءنا رحمہم اللہ:من قال أرواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر‘‘.(کتاب السیر،باب أحکام المرتدین:209/5،رشیدیۃ)
وفي سنن النسائي:
’’عن عبداللہ بن عباس رضي اللہ عنہما ،قال:لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زائرات القبور والمتخذین علیھا المساجد والسرج‘‘.(کتاب الجنائز، باب التغلیظ في اتخاذ السرج علی المقابر،رقم الحدیث:2045،ص:405،دارالسلام).
وفي الشامیۃ:
’’ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أھل المیت؛  لأنہ شرع في السرورلافي الشرور، وھي بدعۃ مستقبحۃ.....ولاسیما إذا کان في الورثۃ صغار أو غائب‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب کراھۃ الضیافۃ من أھل المیت:175/3،رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/200