سنت کا مذاق اُڑانے کا حکم

سنت کا مذاق اڑانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے سنت کے مطابق بال رکھے ہوئے ہیں اور ان کی صفائی کا بھی خوب خیال رکھتا ہے، اس کے چند تبلیغی دوست اس پر طنز کرتے ہیں، ایک شخص کہتا ہے وہ دیکھو بالوں والی سرکار آگئی ، دوسرا کہتا ہے کہ اس کو کوئی نائی نہیں ملا ہوگا اس لیے بال بڑے ہوگئے، تیسرا کہتا ہے مجھے تو اس کے بالوں سے ڈر لگ رہا ہے، یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی نیت کیا تھی، بہر حال وہ ساتھی صرف حلق یا چھوٹے بالوں کو ہی سنت سمجھتے ہیں اور زلفوں کو صحیح نہیں سمجھتے، تو ان کے متعلق کیا حکم ہے، اگر استہزاء کی نیت ہو، یا وہ لا علمی کی وجہ سے ایسا کہہ رہے ہوں دونوں صورتوں کا حکم واضح فرمائیں۔

جواب

زلفوں کا رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اس کا مذاق اڑانا سخت خطرناک امر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مذاق ہے، اور اگر اس نیت سے مذاق نہیں اڑایا تو بھی بہر حال گناہ ضرور ہے، لہذا نرمی سے سنت کی اہمیت ان کو سمجھائیں، ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔
لما في سنن ابی داؤد:
’’حدثنا حفص بن عمر:حدثنا شعبۃ عن أبی اسحاق عن البر اء قال: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لہ شعر یبلغ شحمۃ أذنیہ‘‘.
’’حدثنا مخلد بن خالد:حدثنا عبد الرزاق، حدثنا معمر عن ثابت، عن أنس قال: کان شعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی شحمۃ أذنیہ‘‘.
’’حدثنا مسدد، حدثنا اسماعیل، حدثنا حمید عن أنس بن مالک رضی اللہ عنہ قال: کان شعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی أنصاف أذنیہ‘‘.
(أول کتاب الترجل، باب ما جاء فی الشعر، ص: 826,827، ارقام الحدیث: 4184,4185,4186، دار السلام)
وفي الفتاوی الھندیۃ:
’’من لم یقر ببعض الأنبیاء علیھم الصلاۃ والسلام، أو لم یرض بسنۃ من سنن المرسلین فقد کفر. کذا فی المحیط رجل قال لغیرہ: کلما کان یأکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یلحس أصابعہ الثلاث، فقال ذلک الترجل:(این بی ادبی است) فھذا کفر إذا قال: (پہ نعزر سمی است دھقان را کہ طعام خورند ودست نشو یند) قال: إن کان تھاونا بالسنۃ یکفر، کذا فی المحیط. ومن أتی بلفظۃ الکفر وھو لم یعلم أنھا کفر، إلا أنہ أتی بھا عن اختیار، یکفر عند عامۃ العلماء خلافًا للبعض، ولا یعذر بالجھل، کذا فی الخلاصۃ. الھازل أو المستھزی إذا تکلم بکفر استخفافا واستھزاء ومزاحًا، یکون کفرًا عن الکل، وإن کان اعتقادہ خلاف ذالک، کذا فی فتاوی قاضیخان‘‘.(کتاب السیر، الباب التاسع في أحکام المرتدین، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام:2/ 275-277,287، دار الفکر بیروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/327