سفر میں سنتیں پڑھنے کا حکم

سفر میں سنتیں پڑھنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہم چند ساتھیوں میں سفر کی سنتوں کےبارے میں اختلاف ہے،بعض کا کہنا ہے کہ ضرور پڑھنی چاہیں اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ نفل کی طرح ہیں، براہِ کرم سفر کی سنتوں کا حکم بیان فرمائیں،تاکہ ہم سب ساتھیوں کو صحیح مسئلہ معلوم ہو جائے۔

جواب

سفر میں سنتوں کی قصر نہیں ہے، اطمینان کی حالت ہو اور جلدی  نہ ہو، ساتھیوں سے الگ رہ جانے کا ڈر نہ ہو، ساتھیوں کو انتظا رکرنے کی زحمت بھی نہ ہو تو مؤکدہ سنتیں خصوصاً فجر اور مغرب کےبعد کی سنت نہ چھوڑے،ہاں اگر اطمینان نہ ہو تو نہ پڑھے، بعض کے نزدیک اطمینان ہو تب بھی مؤکدہ سنتیں ترک کرنا جائز ہے،لیکن مختار یہ ہے کہ نہ چھوڑے۔

''(وَیَأْتِی) الْمُسَافِرُ (بِالسُّنَنِ) إنْ کَانَ (فِی حَالَ أَمْنٍ وَقَرَارٍ وَإِلَّا)، ہُوَ الْمُخْتَارُ،''( رد المختار، باب صلاۃ المسافر ٢/١٣١، سعید)

''عَنْ البَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ سَفَرًا، فَمَا رَأَیْتُہُ تَرَکَ الرَّکْعَتَیْنِ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّہْرِ.''(ترمذی ١/٧٢، قدیمی).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی