رمضان میں امام حرم کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا حکم

رمضان میں امام حرم کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا حکم

سوال

رمضان میں حرم میں امام حرم کی اقتداء میں ایک رکعت وتر پڑھیں یا انفرادی تین رکعت پڑھیں؟

جواب

واضح رہے کہ حضرات احناف کے ہاں وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا واجب ہے، اور حرمین میں چونکہ وتر کی نماز دو سلاموں کے ساتھ پڑھائی جاتی ہیں، اس لیے مفتی بہ قول کے مطابق ائمہ حرمین کی اقتداء میں وتر پڑھنے کا جواز معلوم نہیں ہوتا، البتہ امام ابو بکر رازی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق ائمہ حرمین کی اقتداء میں وتر پڑھنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، لہذا حالات کے پیش نظر اگر ائمہ حرمین کی اقتداء میں وتر کی نماز پڑھ لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، اور بعد میں احتیاطاً اعادہ کرلیا جائے۔

لمافي تبیین الحقائق:

«وذكر أبو بكر الرازي اقتداء الحنفي بمن يسلم على رأس الركعتين في الوتر يجوز، ولا يسلم، ويصلي معه بقية الوتر؛ لأن إمامه لم يخرج بسلامه عنده؛ لأنه مجتهد فيه كما لو اقتدى بإمام قد رعف».

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنفل: 1/427، دار الكتب العلمية)

وفي رد المحتار:

«والذي يميل إليه القلب عدم كراهة الاقتداء بالمخالف ما لم يكن غير مراع في الفرائض؛ لأن كثيرًا من الصحابة والتابعين كانوا الأئمة مجتهدين وهم يصلون خلف إمام واحد مع تباين مذاهبهم».

(كتاب الصلاة، مطلب: إذا صلى الشافعي قبل الحنفي هل الأفضل الصلاة مع الشافعي أم لا؟: 2/364، رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 176/210