رشتہ داروں کے ہاں میلاد کا کھانا کھانے کا حکم

رشتہ داروں کے ہاں میلاد کا کھانا کھانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ رشتہ داروں کے ہاں میلاد میں ،سوئم میں،برسی یا چہلم میں بلائیں تو جانا چاہیے یا نہیں او ر اسے قطع رحمی وغیرہ کا گناہ تو نہیں ہوگا؟ اور نہ جانے پر وہ کھانا نیاز کا بھیج دیتے ہیں،تو وہ کھانا کھانا اور لینا کیسا ہے؟
اسی طرح نیاز گیارہویں،محرم کی اور دوسری نیاز وغیرہ کرنا کیا شرک ہے، یا بدعت ہے ،یا گناہ ہے؟

جواب

شریعت میں میت کے انتقال کے بعد تیجہ،دسواں،بیسواں اور چالیسواں اور اس قسم کی دیگر رسومات عید میلاد النبیﷺ ان سب کا کوئی ثبوت نہیں، یہ سب بدعت اور خرافات ہیں ، ان سے بچنا ضروری ہے اور ان جیسی مجالس میں جانے سے گریز کریں، نیز ا س میں کھانوں کے لینے دینے سے بھی گریز کریں اور اس میں کسی قسم کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں،بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی کو اپنا شعار بنائیں۔
نیاز گیارہویں اور محرم کی نیازیں غیر اللہ کے نام پر کی جائے، تو شرک ہے۔
لما في رد المحتار:
’’وفي البزازیۃ:ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث:وبعد الاسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المراسم‘‘.(مطلب في کراھۃ الضیافۃ من أھل المیت:۱۷۵/۳،رشیدیۃ).
وفي مرقاۃ المفاتیح:
’’من أصر علی مندوب وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر‘‘.(کتاب الصلاۃ،باب الدعاء في التشھد،الفصل الأول، رقم الحدیث:937،رشیدیۃ)
وفي البحر الرائق:
’’وعرفھا الشمني بأنھا ما أحدث علی خلاف الھق المتلقی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبھۃ واستحسان وجعل دینا قویما وصراطاً مستقیماً‘‘.(کتاب الصلاۃ،باب الإمامۃ:۵۶۱/۱،رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:175/128