ربیع الاول کے مہینے کی تخصیص کر کے جلسے ،جلوس کا انعقاد کرنا

ربیع الاول کے مہینے کی تخصیص کر کے جلسے ،جلوس کا انعقاد کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ربیع الاول کے مہینہ کی تخصیص کر کے سیرت مصطفیٰﷺ ،عظمت مصطفیٰﷺ، شان مصطفیٰﷺ،ولادت مصطفیٰ ﷺ وغیرہ جیسے ناموں سے جلسہ وجلوس کا انعقاد کرنا کیساہے؟

جواب

واضح رہے کہ کوئی ایسا کام جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین رحمہم اللہ سے ثابت نہ ہو، اس کو خاص دن یا خاص کیفیت وہیئت کے ساتھ متعین کر کے، عبادت اور ثواب کی نیت سے کرنا، بدعت اور گناہ کا عمل ہے۔
لہٰذا سیرت مصطفیٰ اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم  وغیرہ ناموں سے جلسہ کرنا ایک مستحسن امر ہے، بشرطیکہ اس کے لیے کوئی تاریخ،مہینہ یا دن متعین نہ کیا جائے، اور ہر طرح کی بدعات،رسومات اور خرافات سے خالی ہو، اگر مذکورہ شرائط میں کوئی نہ پایا جائے تو یہ ناجائز ہے، اور اگر دن یا مہینہ خاص کر کے کیا جائے تو یہ بدعت ہے، اسی طرح اس مہینے جلوس نکالنا بھی درست نہیں، کیونکہ یہ غیروں کے ساتھ مشابہت ہے ،اور حدیث شریف میں اس سے منع کیا گیا ہے کہ:’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘.
لما في المدخل:
’’ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادھم أن ذلک من أکبر العبادات وإظھار الشعائر ما یفعلونہ في شھر ربیع الأول من مولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ‘‘.(فصل في المولد،الجزء الثاني:1/5،المکتبۃ العصریۃ)
وفي الاعتصام للشاطبي:
’’ومنھا:التزام الکیفیات والھیئات المعینۃ کالذکر بھیئۃ الاجتماع علی صوت واحد واتخاذ یوم ولادۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم عیدا وما أشبہ ذلک.
ومنھا:التزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لھا ذلک التعیین في الشریعۃ کالتزام صیام یوم النصف من شعبان وقیام لیلتہ‘‘.(الباب السادس في أحکام البدع ،فصل إذا ثبت ھذا انتقلنا منہ إلی معنی آخر،ص:354،دارالمعرفۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/24