کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ اعتکاف کے دوران آفس کے کام کے لیے جانا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ اعتکاف کے دوران آفس کے لیے جانا درست نہیں، ورنہ اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔لما في رد المحتار:
’’(وحرم علیہ) أي علی المعتکف اعتکافا واجبا أما النفل فلہ الخروج لأنہ منہ لا مبطل کما مر (الخروج إلا لحاجۃ الإنسان) طبیعیۃ کبول وغائط وغسل لو احتلم ولا یمکنہ الاغتسال في المسجد کذا في النھر (أو) شرعیۃ کعید وأذان لو مؤذنا وباب المنارۃ خارج المسجد و (الجمعۃ وقت الزوال ومن بعد منزلہ) أي معتکفہ (خرج في وقت یدرکھا) مع سنتھا یحکم في ذلک رأیہ، ویستن بعدھا أربعاأو ستا علی الخلاف، ولو مکث أکثر لم یفسد؛ لأنہ محل لہ وکرہ تنزیھا لمخالفۃ ما التزمہ بلا ضرورۃ. (فلو خرج)ولو ناسیا (ساعۃ) زمانیۃ لا رملیۃ کما مر (بلا عذر فسد) فیقضیہ إلا إذأفسدہ بالردۃ واعتبرا أکثر النھار قالوا: وھو الاستحسان وبحث فيہ الکمال (و) إن خرج (بعذر یغلب وقوعہ) وھو ما مر لاغیر(لا)‘‘. (کتاب الصوم، باب الاعتکاف:500/3، رشیدیۃ).
فقط.واللہ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:179/05