خواتین کے لیے ڈرائیونگ کا حکم

خواتین کے لیے ڈرائیونگ کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس کے بارے میں کہ کیا عورت شرعی لباس میں رہ کر گاڑی چلا سکتی ہے؟ دو پہیہ یا چار پہیہ والی گاڑی۔ اگر جواب ہاں ہے، تو اس بات کو کس اصل سے متعلق سمجھا جائے گا؟برائے مہربانی تفصیلا جواب ارسال فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں کتابت میں خطا ہوئی ہو تو بندہ معافی کا طلب گار ہے۔

جواب

پہلے بطور تمہید دو اصولی باتیں ملاحظہ ہوں:
١) عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے، البتہ اگر حاجت وضرورت ہو تو گھر سے نکل بھی سکتی ہے، بشرطیکہ شرعی پردے کے ساتھ ہو اور اگر مسافت سفر پر نکلے، تو محرم بھی ساتھ ہو، چناں چہ عورت کا اصل فریضہ جب گھر اور خاندان کی تعمیر ہے، تو ایسی سرگرمیاں جو اس مقصد میں خلل انداز ہوں، اس کے اصل مقصدِ زندگی کے خلاف ہے، اور ان سے معاشرے کا توازن بگڑ جاتا ہے۔
٢) کبھی بعض ایسے کام جو اگرچہ فی نفسہ مباح ہوتے ہیں، لیکن خارجی مفاسد کے پیشِ نظر ان سے منع کیا جاتا ہے، تاکہ وہ مباح کام ان مفاسد کی بھینٹ چڑھ جائے۔
اس تمہید کے بعد صورتِ مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ:
٭ خاتون کو محض شوقیہ گھومتے پھرتے رہنے کی اجازت نہیں، یہ نکلنا پیدل ہو، یا کسی سواری میں۔
٭ ایسی کسی دینی ضرورت یا دنیوی حاجت کے لیے نکلنا ہو، جس کے بغیر چارہ کار نہیں، اور اس میں ڈرائیونگ بھی ضروری ہو، تو پردہ کا اہتمام کرتے ہوئے خاتون گاڑی چلا سکتی ہے، البتہ اگر شرعی مسافت کا سفر ہو تو اس کے لیے محرم کا ہمراہ ہونا لازمی ہے۔
٭ ہمارے مشرقی معاشرے میں کسی خاتون کا موٹر سائیکل چلانے کا رواج نہیں، بلکہ عرف عام میں بھی اسے معیوب سمجھا جاتا ہے، نیز اس میں مردوں کے ساتھ نسبتاً اختلاط اور مشابہت زیادہ ہونے کے علاوہ پردے اور ستر کی حفاظت کا اہتمام بھی مشکل ہے، لہذا عام حالات میں خواتین کے لیے موٹر سائیکل چلانے کی اجازت نہیں۔
لما في التنزیل:
˒˒وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الأولی˓˓.(سورۃ الأحزاب: ٣٣).
وفي أحکام القرآن للجصاص:
˒˒وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الأولی˓˓.
’’روی ہشام عن محمد بن سیرین قال :قیل لسودۃ بنت زمعۃ: ألا تخرجین کما تخرج أخوتک، قالت: واللہ لقد حججت واعتمرت ،ثم أمرني اللہ أن أقر في بیتي ،فواللہ لا أخرج فما خرجت حتی أخرجوا جنازتہا ،وقیل :إن معنی وقرن في بیوتکن کن أھل وقار وھدوء وسکینۃ یقال وقر فلان في منزلہ یقر وقورا إذا ھدأ فیہ واطمأن بہ وفیہ الدلالۃ علی أن النساء مأمورات بلزوم البیوت منہیات عن الخروج‘‘.(سورۃ الأحزاب، رقم الآیۃ: ٣٣،  ٧/ ١١٨: دار إحیاء التراث)
وفي جامع الترمذي:
’’عن عبد اللہ ،عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: المرأۃ عورۃ فإذا خرجت استشرفہا الشیطان‘‘.(آخر کتاب الرضاع، رقم الحدیث: ١١٧٣، ص: ٣٧٤: دار السلام)
وفي الہندیۃ:
’’قال محمد رحمہ اللہ تعالی: لا یعجبنا أن تقاتل النساء المسلمات مع الرجال إلا أن یضطر المسلمون إلی ذلک‘‘.(کتاب السیر، الباب الأول في تفسیرہ شرعا، ٢/ ٢٠٦: دار الفکر)
وفي الشامیۃ:
’’لا ترکب مسلمۃ علی سرج للحدیث. ہذا لو للتلہي، ولو لحاجۃ غزو أو حج أو مقصد دیني أو دنیوي لا بد لہا منہ فلا بأس بہ‘‘.(کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع: ٦/ ٤٢٣: سعید).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:173/92