حضور ﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں نماز کس نے پڑھائی

حضور ﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں نماز کس نے پڑھائی

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے آخری ایام میں صاحب فراش تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر سے فرمایا نماز پڑھا دیں، وہاں پر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ موجود تھے، فاروق اعظم نے بات کو اچھی طرح سنا نہ تھا، فوراً نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً فرمایا:
’’کلا کلا‘‘، خبردار !نہیں، صدیق اکبر نماز پڑھائیں گے، امامت صدیق اکبر کریں گے، اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو مہربانی فرماکر عربی کی اصل عبارت جلد نمبر اور صفحہ نمبر بھی بتادیں عبارت لکھ کر دے دیں، آپ کی بہت نوازش ہوگی۔

جواب

صورت مسئولہ میں ذکر کردہ واقعہ تلاش بسیار کے باوجود کسی حدیث سے نہیں ملا، البتہ سنن ابی داود میں اس قسم کا واقعہ مذکور ہے ،جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ اول ہونے پر دلالت کرتا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری سخت ہوئی، میں آپ ہی کے پاس مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھا، تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے بلایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کو کہو کہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھائے، تو حضرت عبد اللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ باہر نکلے، تو دیکھا کہ لوگوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو موجود ہیں، اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت موجود نہیں ہے، تو حضرت عبد اللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے کہا کہ: آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کی، چوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بلند آواز شخص تھے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تکبیر کی آواز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ابو بکر کہاں ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ ’’لا،لا،لا‘‘ نہیں، نہیں، نہیں، (ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے دوسرا صحابی امام نہیں بن سکتا) لوگوں کو صرف ابو بکر ہی نماز پڑھائے۔
لما في سنن أبي داود:
’’حدثنا عبد اللہ بن محمد النفیلي، حدثنا محمد بن سلمۃ عن محمد بن إسحاق ،قال:حدثني الزھري ،قال:حدثني عبد الملک ابن أبي بکر بن عبد الرحمن بن الحارث بن ھشام عن أبیہ، عن عبد اللہ بن زمعۃ ،قال:لما استعزّ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأنا عندہ في نفر من المسلمین دعاہ بلال إلی الصلاۃ فقال: مروا من یصلي للناس، فخرج عبد اللہ بن زمعۃ فإذا عمر في الناس، فتقدم فکبر، فلما سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صوتہ - وکان عمر رجلا مجھرا- قال: فأین أبو بکر؟ یأبی اللہ ذلک والمسلمون، یأبی اللہ ذلک والمسلمون، فبعث إلی أبي بکر ،فجاء بعد أن صلی عمر تلک الصلاۃ فصلی بالناس‘‘.
وفیہ أیضا:
’’حدثنا أحمد بن صالح، حدثنا ابن أبي فدیک، حدثنا موسی بن یعقوب عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن ابن شھاب عن عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبۃ أن عبد اللہ بن زمعۃ أخبرہ بھذا الخبر قال: لما سمع النبي صلی اللہ علیہ وسلم صوت عمر، قال ابن زمعۃ خرج النبي صلی اللہ علیہ وسلم حتی أطلع رأسہ من حجرتہ ثم قال: لا، لا، لا، لیصل للناس ابن أبي قحافۃ، یقول ذلک مغضبا‘‘.(باب استخلاف أبي بکر رضي اللہ عنہ، أول کتاب السنۃ، ٦٥٩: دار السلام للنشر والتوزیع).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:176/75