حج کےایام میں قصر اور جمع بین الصلاتین کے متفرق احکام

حج کےایام میں قصراور جمع بین الصلاتین کے متفرق احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ

۱۔ کوئی مسلمان جب حج وعمرہ کی نیت سےسعودی عرب کا سفر کرتا ہے،تو کیا اسے سفر کے دوران  قصر کرنا ضروری ہے، نیز حاجی مکہ میں مسافرہو گا،یا مقیم ؟جب کہ اس کا دوران قیام منی، عرفات اور مزدلفہ بھی آنا جانا ہو،اسی صورت میں وہ مقیم ہو گا، یا مسافر اورمنی اورمکہ شہر واحد کے حکم میں ہیں، یا دو الگ الگ شہر؟

۲۔ مزدلفہ میں جمع بین الصلوٰتین کی صورت میں مغرب اور عشاء کی نماز کیسے ادا کریں گے، نیز مغرب وعشا کی سنتیں کب پڑھیں گے او رکیسے پڑھیں گے؟

۳۔ عرفات میں ظہر وعصر کو جو اکھٹے یعنی جمع کرکے ایک وقت میں پڑھتے ہیں ،اس کے لیے کیا شرائط ہیں،اگر یہ نمازیں مرکزی امام کے پیچھے نہ پڑھی جائیں،تو ادائیگی کا طریقہ کیا ہو گا، کیا قصر کرے گا یا پوری پڑھے گا وضاحت فرمائیں؟

جواب

۱۔ دوران سفر قصر کرے گا،مقیم ہونے کے لیے شرط ہے کہ ایک ہی جگہ کم از کم پندر دن ٹھہرنے کی نیت ہو او رمکہ مکرمہ، منیٰ، عرفات یہ ایک جگہ نہیں ،بلکہ  الگ الگ تین جگہیں ہیں،اس لیے جن لوگوں کو منی جانے سے پہلے مکہ شریف میں پندرہ دن ٹھہرنے کا وقفہ مل جائے وہ مقیم ہوں گے اور منیٰ، عرفات میں بھی پوری ہی نماز پڑھیں گے، اسی طرح منی کے اعمال سے فراغ ہو کر پندرہ دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنا ہو تب بھی مقیم ہوں گے،لیکن جن لوگوں کو مکہ شریف میں یا کسی اور جگہ میں کم از کم پندرہ دن قیام کا موقع نہیں ملتا ،وہ مسافر ہوں گے۔

۲۔ مزدلفہ میں جمع بین الصلاتین ضرور ہے، خواہ امام کے ساتھ جماعت میں شریک ہو یا تنہا پڑھے ،دونوں نمازیں ایک اذان اورایک اقامت کے ساتھ پڑھی جائیں، دونوں نماز کے درمیان سنتیں نہ پڑھی جائیں ،بلکہ سنتیں بعد میں پڑھیں، پہلے مغرب کی ،پھر عشا کی ، پھر وتر پڑھے اور اگر مغرب پڑھ کر اس کی سنتیں پڑھ لیں تو عشا کے لیے دوبارہ اقامت کہی جائے۔

۳۔ عرفات میں ظہر اور عصر جمع کرنے کے لیے امام حج کے ساتھ جماعت میں شرکت شرط ہے، اگر جماعت میں شریک نہ ہوں تو ان کے لیے ظہر وعصر کو اپنے اپنے وقت پر اپنے خیموں میں پڑھنا لازم ہے، خواہ وہ جماعت کرائیں یا اکیلے اکیلے نماز پڑھیں، ان کے لیے ظہر وعصر کوجمع کرنا جائز نہیں،اگر مقیم ہے تو پوری نماز پڑھے گا او راگر مسافر ہے تو قصر کرے گا، مسافر اور مقیم ہونے کی صورت جواب نمبر(۱) میں ملاحظہ کر لی جائے۔

اگر امام حج کے ساتھ کوئی مقیم آدمی نماز پڑھنا چاہے تو وہ اس طرح نماز ادا کر سکتا ہے کہ امام جیسے ہی ظہر کی نماز کا سلام پھیرے تو یہ کھڑا ہو کر مختصر قرأت کے ساتھ اپنی بقیہ دورکعتیں مکمل کرلے،پھر امام کے ساتھ عصر کی نماز میں شریک ہو جائے اور یہ نماز بھی پہلے کی طرح مکمل ہے۔

''ومن خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً سیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیھا۔۔۔صلی الفرض الرباعی رکعتین۔۔۔حتی دخل موضع اقامتہ أو ینوی إقامۃ نصف شھر بموضع واحد صالح لھا۔۔۔فیقصر إن نوی الإقامۃ من أقل منہ أی نصف شھر أو نوی فیہ لکن فی غیر صالح۔۔۔أو نوی لکن بموضعین مستقلین کمکۃ ومنی.''(تنویر الأبصار علی الدرالمختار،باب صلاۃ المسافر ٢/١٢١،١٢٦، سعید)

''فَإِذَا دَخَلَ وَقْتُ الْعِشَاء ِ یُؤَذِّنُ الْمُؤَذِّنُ وَیُقِیمُ فَیُصَلِّی الْإِمَامُ بِہِمْ صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ فِی وَقْتِ صَلَاۃِ الْعِشَاء ِ ثُمَّ یُصَلِّی بِہِمْ صَلَاۃَ الْعِشَاء ِ بِأَذَانٍ، وَإِقَامَۃٍ وَاحِدَۃٍِ وَلَا یَتَطَوَّعُ بَیْنَہُمَا وَلَوْ تَطَوَّعَ بَیْنَہُمَا أَوْ اشْتَغَلَ بِشَیْء ٍ أَعَادَ الْإِقَامَۃَ وَلَا تُشْتَرَطُ الْجَمَاعَۃُ عِنْدَ أَبِی حَنِیفَۃَ - رَحِمَہُ اللَّہُ تَعَالَی - وَمَنْ صَلَّی الْمَغْرِبَ أَوْ الْعِشَاء َ وَحْدَہُ أَجْزَأَہُ بِخِلَافِ الصَّلَاتَیْنِ بِعَرَفَۃَ عَلَی أَصْلِ أَبِی حَنِیفَۃَ - رَحِمَہُ اللَّہُ تَعَالَی -.''(الھندیۃ، کتاب المناسک ١/٢٣٠، رشیدیۃ)
''ثُمَّ یَنْزِلُ فَیُصَلِّی الْإِمَامُ الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ فِی وَقْتِ الظُّہْرِ بِأَذَانٍ وَإِقَامَتَیْنِ وَلَا یَجْہَرُ فِیہِمَا کَذَا فِی مُحِیطِ السَّرَخْسِیِّ وَلَا یَتَطَوَّعُ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ غَیْرَ سُنَّۃِ الظُّہْرِ فَلَوْ تَطَوَّعَ بَیْنَہُمَا کُرِہَ۔۔۔(وَمِنْہَا الْجَمَاعَۃُ) عِنْدَ أَبِی حَنِیفَۃَ - رَحِمَہُ اللَّہُ تَعَالَی- وَعِنْدَہُمَا لَیْسَتْ بِشَرْطٍ فَمَنْ صَلَّی الظُّہْرَ وَحْدَہُ فِی رَحْلِہِ صَلَّی الْعَصْرَ فِی وَقْتِہِ عِنْدَ أَبِی حَنِیفَۃَ - رَحِمَہُ اللَّہُ تَعَالَی - وَقَالَا یَجْمَعُ بَیْنَہُمَا الْمُنْفَرِدُ۔۔۔وَالصَّحِیحُ قَوْلُ أَبِی حَنِیفَۃَ - رَحِمَہُ اللَّہُ تَعَالَی .''(الھندیۃ، کتاب المناسک ٢٢٨/١،رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی