جن علاقوں میں چھے ماہ دن اور رات ہو وہاں نمازاور روزے کا حکم؟

جن علاقوں میں چھے ماہ دن اور رات ہو وہاں نمازاور روزے کا حکم؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایسی جگہ جہاں غروب شفق سے پہلے یاغروب شفق کے بعد فوراً فجر طلوع ہوتی ہے اور وقت عشاء نہیں ملتا ،یا چھے ماہ مسلسل دن اور چھے ماہ مسلسل رات رہتی ہو، وہاں ان نمازوں کا حکم کیا ہو گا،جن کا وقت ہی نہیں آیا؟کیا ان کا ادا کرنا بھی ضروری ہے؟

جواب

ان تمام مقامات میں جہاں بعض نمازوں کے اوقات نہ ملتے ہوں، وہاں ان نمازوں  کا ادا کرنا فرض ہے اور یہ قول راجح اور واجب العمل ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سب جگہ کے لوگوں پر نماز پنجگانہ فرض کی ہے، کوئی اس سے مستثنیٰ نہیں،اور دوسری وجہ یہ ہے کہ حدیث معراج میں ہے کہ اولاً پچاس نمازیں فرض تھیں پھر کمی کرتے کرتے پانچ نمازیں برقرار ہیں، اس میں کوئی تصریح نہیں کہ یہ حکم فلاں ملک کے لیے ہے اور فلاں ملک کے لیے نہیں اور اﷲ تعالیٰ کو کائنات عالم کی تمام اشیا کا علم ہے لہٰذا اس حکم سے کوئی مستثنیٰ نہیں۔

اسی طرح حدیث دجال میں ہے کہ ایک دن سال کے برابر ایک دن مہینہ کے برابر ایک دن ہفتہ کے برابر بڑا ہو گا صحابہ کرام نے عرض کیا کہ آیا ان ایام میں بھی پانچ نمازیں کافی ہوں گی ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں پانچ کفایت نہیں کریں گی، ان ایام میں برس مہینے اور ہفتوں کی نمازیں اندازہ کرکے پڑھنی ہوں گی یعنی چوبیس گھنٹوں میں پانچ نمازیں قدرے فاصلہ سے ہمیشہ ادا کی جائیں اور اسی طرح بقیہ جتنی عبادات ہیں مثلاً زکوٰۃ حج، روزہ وغیرہ وہ بھی اسی حساب سے ادا کی جائیں۔

''بَقِیَ الْکَلَامُ فِی مَعْنَی التَّقْدِیرِ، وَاَلَّذِی یَظْہَرُ مِنْ عِبَارَۃِ الْفَیْضِ أَنَّ الْمُرَادَ أَنَّہُ یَجِبُ قَضَاء ُ الْعِشَاء ِ، بِأَنْ یُقَدِّرَ أَنَّ الْوَقْتَ أَعْنِی سَبَبَ الْوُجُوبِ قَدْ وُجِدَ کَمَا یُقَدَّرُ وُجُودُہُ فِی أَیَّامِ الدَّجَّالِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَیَحْتَمِلُ أَنَّ الْمُرَادَ بِالتَّقْدِیرِ الْمَذْکُورِ ہُوَ مَا قَالَہُ الشَّافِعِیَّۃُ مِنْ أَنَّہُ یَکُونُ وَقْتَ الْعِشَاء ِ فِی حَقِّہِمْ بِقَدْرِ مَا یَغِیبُ فِیہِ الشَّفَقُ فِی أَقْرَبِ الْبِلَادِ إلَیْہِمْ، وَالْمَعْنَی الْأَوَّلُ أَظْہَرُ. (رد المحتار: کتاب الصلوٰۃ ١/٣٦٢، سعید)

'' وفاقد وقتھما کبلغار، فإن فیھا یطلع الفجر قبل غروب الشفق فی أو بعینۃ الشتاء مکلف بھما، فیقدر لھما، ولا ینوی القضا، لفقد وقت الأداء بہ أفتی البرھان الکبیر، واختارہ الکمال، وتبعہ ابن الشحنۃ فی ألغازہ، فصححہ، فزعوا المصنف أنہ المذھب.'' (الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ ١/٣٦٢، سعید)

''عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، قَالَ: ذَکَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاۃٍ، فَخَفَّضَ فِیہِ وَرَفَّع۔۔۔۔۔۔ قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللہِ وَمَا لَبْثُہُ فِی الْأَرْضِ؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ یَوْمًا، یَوْمٌ کَسَنَۃٍ، وَیَوْمٌ کَشَہْرٍ، وَیَوْمٌ کَجُمُعَۃٍ، وَسَائِرُ أَیَّامِہِ کَأَیَّامِکُمْ قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللہِ فَذَلِکَ الْیَوْمُ الَّذِی کَسَنَۃٍ، أَتَکْفِینَا فِیہِ صَلَاۃُ یَوْمٍ؟ قَالَ: لَا، اقْدُرُوا لَہُ قَدْرَہُ. (مسل، کتاب الفتن، ذکر الدجال، ٢/٤٠٠،٤٠١، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی