جمعہ کے دن پہلی اذان کو بیان سے مؤخر کرنے کا حکم

جمعہ کے دن پہلی اذان کو بیان سے مؤخر کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ اکثر مساجد میں جمعہ کی دن پہلی اذان خطبہ سے تقریباً پون یاایک گھنٹہ قبل دی جاتی ہے، حالاں کہ یہ بات بھی مشہور ہے کہ جمعہ کی پہلی اذان کے بعد سوائے جمعہ کی تیار ی کے کوئی اور عمل کرنا ناجائز ہے، چوں کہ عوام میں دین سے دوری پائی جاتی ہے ،لہٰذا نہیں کوئی فکر نہیں کہ ہم اس ناجائز کام کا ارتکاب کر رہے ہیں، اچھے خاصے سمجھ دار لوگ بھی عین خطبہ کے وقت آتے ہیں، ان حالات میں بعض مساجد میں یہ دیکھنے میں آیا کہ جمعہ کے دن اولاً وعظ ہوتا ہے، وعظ کے ختم پر پہلی اذان ہوتی ہے ،پھرسنتیں ادا کی جاتی ہیں ،پھر خطبہ کی دوسری اذان ہوتی ہے، دریافت کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ لوگوں کو اس گناہ عظیم میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے، آپ حضرات سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ قابل عمل ہے؟ او رکیا واقعتا لوگ اس گناہ سے بچ جائیں گے او راپنی اپنی مساجد میں اس کو جاری کرنا چاہیے یانہیں؟قریب میں اگر دوسری مسجد سے اذان اوّل کی آواز آجائے، تو اس مسجد میں نماز پڑھنے والا پھر بھی گناہ میں مبتلا ہو گا؟

جواب

جمعہ کی اذانِ اوّل ہوتے ہی تمام کاموں کو چھوڑ کر نماز جمعہ کے لیے مسجد جانا واجب ہے، کام کاج، خرید وفروخت یا جمعہ کی تیاری کے علاوہ کسی ایسے دینی یا دنیوی کام میں مشغول ہونا جس سے سعی الی الجمعہ میں خلل پڑے، مکروہ تحریمی یعنی ناجائز ہے،جمعہ کی اذانِ اوّل ہوتے ہی جو لوگ فوراً نماز جمعہ کی تیا ری میں مشغول نہیں ہوتے ،بلکہ اپنی نجی مصروفیات میں وقت گزارتے ہیں وہ سخت گناہ گار ہوتے ہیں، لہٰذا عوام الناس کو اس حکمِ شرعی کی مخالفت اور گناہِ عظیم سے بچانے کے لیے تمام مساجد کی انتظامیہ یا وہاں کے بااختیار افراد اگر اس سلسلے میں یہ طریقہ اپنائیں کہ بیان وعظ وغیرہ اذان اوّل سے پہلے کیا جائے ،اس کے بعد اذانِ اوّل ، پھر کچھ سنتوں کا وقفہ دے کر خطبہ کے لیے اذان کہی جائے اور خطبہ پڑھ کر نماز ادا کی جائے تو یہ درست بلکہ بہتر ہے،رہا قریب کی مسجد کی اذان کا مسئلہ تو ہر نمازی اپنے محلے کی مسجد کا پابند ہے ، دوسری قریب کی مسجد کی اذانِ اوّل سننے کی صورت میں وہ گناہ گار نہیں۔

''یجب السعی وترک الاشتغال بالأذان الاول، لقولہ تعالی: فاسعوا إلی ذکر اللہ وذروا البیع، واختلف فی المراد بالأذان الاول فقیل الاذان الاول باعتبار المشروعیۃ وھو الذی بین یدی المنبر؛ لأنہ الذی کان اولا فی زمنہ علیہ السلام وزمن أبی بکر وعمر حتی احدث عثمان الأذان الثانی علی الروراء حین کثر الناس والاصح انہ الاول باعتبار الوقت وھو الذی یکون علی المنارۃ بعد الزوال.'' (الحلبی الکبیر ٥٦٠، سہیل اکیڈیمی)
''وَوَجَبَ سَعْیٌ إلَیْہَا وَتَرْکُ الْبَیْعِ بِالْأَذَانِ الْأَوَّلِ وَتَرْکُ الْبَیْع أَرَادَ بِہِ کُلَّ عَمَلٍ یُنَافِی السَّعْیَ وَخَصَّہُ اتِّبَاعًا لِلْآیَۃِ.'' (الدر المختار مع رد ٢/٦١، کتاب الصلاۃ، سعید). فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی