جمعہ کے دن تقریر کو اذانِ اوّل پرمقدم کرنے کا حکم

جمعہ کے دن تقریر کو اذانِ اوّل پرمقدم کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ فقہاء کرام نے جمعہ کی اذانِ اوّل کے وقت جمعہ کے لیے جانے کو واجب اور بیع کو مکروہ قرار دیا ہے، ہندوستان میں ایک مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کا موقعہ ملا ،وہاں پہلے بیان ہوتا ہے، پھر بیان کے بعد اذان اوّل ہوتی ہے ،اذان اوّل کے فوراً بعد لوگ سنتیں پڑھتے ہیں ،پھر سنت کے بعد اذانِ ثانی ہوتی ہے اور خطبہ شروع ہو جاتا ہے،اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اکثر لوگ اذانِ اوّل کے وقت پہنچ جاتے ہیں ،جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے ،لوگ اذانِ اوّل سنتے ہی ،اس لیے نہیں پہنچتے کہ وہ جانتے ہیں کہ مولانا صاحب ابھی بیان کریں گے ،ابھی تو ہمارے پاس بہت وقت ہے او رمسئلہ نہ جاننے یا اس کی پرواہ نہ کرنے کی وجہ سے عام لوگ اپنے اپنے کاروبار میں مگن رہتے ہیں،براہِ کرم آپ حضرات بتائیں کہ اگر ہندوستان والوں کے طریقے پر عمل کیا جائے تو کیا ایسا جائز ہو گا؟ اور اگر جائز ہے تو کیا ہمارے لیے بھی یہ طریقہ بہتر نہیں کہ اکثر لوگ اس وجوب پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مخالفت کرنے اور اس کی کراہت سے بچ سکتے ہیں؟

جواب

جمعہ کی پہلی اذانِ سن کر جمعہ کی تیاری کے علاوہ تمام کاموں کو چھوڑ کر جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں جانا واجب ہے، اور خرید وفروخت یا اور کسی اپنے کام میں مشغول ہونا جس سے جمعہ کے لیے جانے میں خلل پڑے مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے،اب جب کہ لوگ اذانِ اوّل سن کر فوراً جمعہ کی تیار ی میں مشغول نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے وہ سخت گناہ گار ہورہے ہیں ،جب کہ اذان اوّل تقریر سے پہلے کہنے میں کوئی خاص فائدہ بھی نہیں ہے، تو حکم شرعی کی مخالفت سے عوام الناس کو بچانے کے لیے سوال میں بیان کی گئی صورت کو اختیارکرنا درست بلکہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔

''یجب بمعنی یفترض''ترک البیع''وکذا ترک کل شیء یؤدی إلی الاشتغال عن السعی إلیہا أو یخل بہ کالبیع ماشیا إلیہا لإطلاق الأمر ''بالأذان الأول''الواقع بعد الزوال ''فی الأصح''لحصول الإعلان بہ؛ لأنہ لو انتظر الأذان الثانی الذی عند المنبر تفوتہ السنۃ،وربما لا یدرک الجمعۃ لبعد محلہ وہو اختیار شمس الأئمۃ.''( حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ٥١٨، قدیمی).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی