تراویح میں داڑھی منڈے حافظ کی امامت کا حکم

تراویح میں داڑھی منڈے حافظ کی امامت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے محلہ کی مسجد کی دو منزلیں ہیں، جس میں پہلی منزل میں تو امام صاحب تراویح پڑھاتے ہیں ،مگر دوسری منزل میں ایک حافظ صاحب جو داڑھی کترواتے ہیں ،وہ تراویح پڑھاتے ہیں،جب کہ محلہ ہی کے دوسرے صاحب بھی ہیں ،جو مسجد کے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں اور ان کی داڑھی بھی شریعت کے مطابق ہے،اب محلہ کے بعض حضرات تو تعلقات کی وجہ سے داڑھی کتراونے والے حافظ صاحب کے مؤید ہیں اور محلہ کے دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ ان کی داڑھی چوں کہ شریعت کے مطابق نہیں ہے، اس لیے ان سے زیادہ حقدار محلے کے دوسرے حافظ صاحب ہیں ،جن کی داڑھی شریعت کے مطابق ہے ۔
سوال یہ ہے کہ داڑھی کتراونے والے حافظ صاحب کے پیچھے تراویح صحیح ہے ،یا نہیں ؟اور ان کے بجائے پوری داڑھی رکھنے والے حافظ صاحب تراویح پڑھانے کے زیادہ مستحق ہیں یا نہیں؟

جواب

داڑھی کتروا کر ایک مشت سے کم کروا دینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے ،ایسے شخص کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے ۔
وفي الدرالمختار:وأما الأخذ منھا وھي دون ذالک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد.(الدر المختار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسد: ٢/٤١٨، سعید)
لہٰذا مسجد کے ارباب پر لازم ہے کہ تراویح وغیرہ کی امامت کے لیے صرف ایسے شخص کا تقرر کریں جو شریعت کے مطابق داڑھی رکھتا ہو، ورنہ عامۃ المسلمین کی نمازوں کی خرابی کا وبال ایسے امام کے ساتھ ساتھ ان پر بھی ہوگا۔
ولو قدموا فاسقاً یأثمون بناء علی أن کراھۃ تقدیمہ کراھۃ تحریم.لعدم اعتنائہ بأمور دینہ وتساھلہ في الإتیان بلوازمہ فلا یبعد منہ الإخلال ببعض شروط الصلوۃ وفعل ما ینا فیھا بل ھو الغالب بالنظر إلی فسقہ لذا لم تجز الصلوۃ خلفہ أصلا عند مالک و روایۃ عن أحمد إلا أنا جوزناھا مع الکراھۃ لقولہ علیہ السلام، صلوا خلف کل برو فاجر أوصلوا علی کل برو فاجر وجاہدوا مع کل برو فاجر.رواہ الدار قطني.(الحلبي الکبیر، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ص: ٥١٤، سھیل اکیڈمی، لاھور)
یحرم علی الرجال قطع لحیتہ.(الدرالمختار،کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع: ٦/٤٠٧، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی