بی سی کمیٹی میں اجرت لینے کا حکم

بی سی کمیٹی میں اجرت لینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دس آدمی مل کر بیس بیس ہزار فی کس بچت کمیٹی (بی سی) ڈالتے ہیں، دو لاکھ ہر ماہ ان میں سے ہر ایک کو ملتے ہیں، بعض اوقات منتظم خود بھی اس کمیٹی میں شامل ہوتا ہے اور بعض اوقات خود شامل نہیں ہوتا، لیکن ایک شرط یہ ہے کہ پہلے چار شرکاء میں سے جو کمیٹی لے گا, وہ منتظم کو کپڑے کا ایک جوڑا تحفتاً دے گا، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر منتظم کمیٹی بذات خود بی سی میں شامل ہو، تو اس کے لیے اجرت کے طور پر کچھ بھی لینا درست نہیں، اور اگر منتظم کمیٹی بذات خود شامل نہ ہو تو اجرت لے سکتا ہے، اور اجرت کے طور پر ایک جوڑا کپڑوں کا بھی لے سکتا ہے، بشرطیکہ کپڑے کی قسم اور قیمت وغیرہ سب متعین ہو، اور اس کا مطالبہ تب درست ہوگا جب وہ کمیٹی ڈالنے سے پہلے تمام ارکان کمیٹی کو مطلع کرے اور وہ اس عقد پر راضی بھی ہوں، اور بعض شرکاء پر اجرت کی شرط لگا کر ان سے لینا درست نہیں، اجرت سب شرکاء سے برابر لے گا، اجرت لینے کے بعد جس شریک کو چاہے واپس کردے۔
لما في التنویر مع شرحہ:
’’(ولو) استأجرہ (لحمل طعام) مشترک (بینھما فلا أجر لہ)؛ لأنہ لا یعمل شیأا لشریکہ إلا ویقع بعضہ لنفسہ فلا یستحق الأجر‘‘.(کتاب الإجارۃ، باب إجارۃ الفاسدۃ: ٩/ ١٠١:رشیدیۃ)
وفي الفتاوی الھندیۃ:
’’الإجارۃ نوعان: نوع یرد علی منافع الأعیان کاستئجار الدور والأراضي والدواب والثیاب وما أشبہ ذلک، ونوع: یرد علی العمل کاستئجار المحترفین للأعمال کالقصارۃ والخیاطۃ والکتابۃ وما أشبہ ذلک، کذا في المحیط‘‘.(کتاب الإجارۃ، الفصل الأول في بیان تفسیر الإجارۃ: ٤/ ٤١١:دار الفکر)
وفي فتح القدیر:
’’إذا أخذ الوکیل الأجرۃ لإقامۃ الوکالۃ؛ فإنہ غیر ممنوع شرعا، إذ الوکالۃ عقد جائز لا یجب علی الوکیل إقامتھا، فیجوز أخذ الأجرۃ فیھا‘‘.(کتاب الوکالۃ، ٨/ ٣:العلمیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/319