بہنوں کو جہیز بطور میراث دینے کا حکم

بہنوں کو جہیز بطور میراث دینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ اگر ایک شخص فوت ہوجائے تو اس کے بیٹے کنواری بہنوں کے بارے میں یہ فیصلہ کردیتے ہیں کہ ان کا حصہ وراثت ان کو بطور جہیز دیں گے چناں چہ وہ ایسا کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بعد میں اس بات کا علم ہوجانے پر وہ معاشرتی وجوہات کی بنا پر خاموشی اختیار کرلیں تب کیا حکم ہے؟ اور اگر اس بات پر رضامند نہ ہوں تو تب کیا حکم ہے؟ بعد میں وہ اپنا حصہ وراثت مانگ سکتی ہیں یا نہیں؟ کیا شرعا جہیز میں وراثت کا حصہ دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

لڑکیوں کو بطور جہیز کے جو سامان دیا جاتا ہے وہ تحفہ ہوتا ہے، میراث کا بدل نہیں ہوتا، لہٰذاصورت مسئولہ میں معاشرتی وجوہات کی بناء پر بغیر رضامندی کے خاموشی اختیار کرنے سے وراثت میں بہنوں کا حق ختم نہیں ہوتا، بلکہ بدستور ماں باپ کی وارث رہتی ہیں، اور ان کو شرعاً اپنا حصہ وراثت مانگنے کا بھی حق حاصل ہے، اور انہیں ان کا حصہ دینا لازم ہے۔
لما في التنزیل:
«یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین». (النساء: ١١)
وفي ابن ماجہ:
عن أنس بن مالک رضي اللہ عنہ قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:˒˒من قرض میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ˓˓.(باب الحیف في الوصیۃ، رقم الحدیث: ٢٧٠٣، ط: دار السلام)
وفي الصحیح لمسلم:
عن سعید بن زید بن عمرو بن نفیل أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:˒˒من اقتطع شبرا من الأرض ظلما، طوّقہ اللہ إیاہ یوم القیامۃ من سبع أرضین˓˓.(باب تحریم الظلم وغصب الأرض وغیرہا، رقم الحدیث: ٤١٣٢: دار السلام)
وفی التنویر مع الدر:
’’الإرث جبری لا یسقط بالإسقاط‘‘.(باب الفرائض، ١١/ ٦٧٨: رشیدیۃ)
وفي الموسوعۃ الفقہیۃ:
’’أنہ لا یوجد ما یدل علي أن الجھاز واجب علی أبیھا، ولیس لأحد أن یجبرھا علی ذلک، فإذا قامت بالجھاز وما یلزم من أثاث وأدوات، فھي متبرعۃ‘‘.(الجھاز، ١٢/ ٢٠٦: علوم اسلامیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:175/338