بھنگ کی کاشت اور چرس پینے کا حکم

بھنگ کی کاشت اور چرس پینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

١۔ کیا بھنگ جس کی چرس بنتی ہے، اس کی کاشت کرنا جائز ہے؟

  • ایک صورت یہ ہے کہ بندہ بذاتِ خود کاشت کرے، پھر چرس نکالے بغیر دوسرے کسی مسلمان یا سکھ پر بیچ دے۔
  • دوسری صورت یہ ہے کہ اس سے چرس نکالے اور بغیر پکائے بیچ دے۔
  • تیسری صورت یہ ہے کہ اس کو پکاکر بیچ دے۔

۲۔ کیا چرس کا پینا جائز ہے؟

جواب

(١) واضح رہے کہ چرس اور ہیروئن صرف نشہ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، اس لیے ان کی خرید وفروخت اور ان سے حاصل شدہ آمدنی حرام ہے، افیون اور بھنگ جائز اور مفید چیزوں میں بھی مثلاً: دوا وغیرہ میں استعمال کی جاتی ہے، لہذا ان کی کاشت اور خرید وفروخت جائز ہے، اور اس سے حاصل ہوے والی آمدنی حلال ہے، البتہ اگر کسی شخص کے متعلق یہ معلوم ہوجائے کہ یہ افیون یا بھنگ سے چرس بنائے گا، تو اس شخص کے ہاتھ فروخت کرنا یا زمین اجارے پر دینا جائز نہ ہوگا، اور اس کی آمدنی مکروہ ہوگی۔
مذکورہ حکم اس وقت ہے جب حکومت کی طرف سے ان چیزوں کی زراعت وتجارت پر کوئی پابندی نہ ہو، موجودہ دور میں حکومت نے عوام کو ان کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے ان کی کاشت اور خرید وفروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اور حکومت وقت کے جائز اور مباح قانون کی پابندی شرعا لازم ہے، لہذا ان کی کاشت اور تجارت سے مکمل اجتناب لازم ہے، خلاف ورزی کی صورت میں آمدنی کا حکم شروع میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ہوگا۔
(٢) چرس پینا جائز نہیں۔

لما في الدر:
’’(وصح بیع غیر الخمر) مما مر ومفادہ صحۃ بیع الحشیشۃ، والأفیون قلت: وقد سئل ابن نجیم عن بیع الحشیشۃ:ھل یجوز ؟فکتب :لا یجوز، فیحمل علی أن مرادہ بعدم الجواز عدم الحل‘‘.
وفي الرد:
’’(قولہ: وصح بیع غیر الخمر) أي: عندہ خلافا لھما في البیع، والضمان، لکن الفتوی علی قولہ في البیع، وعلی قولھما في الضمان إن قصد المتلف الحسبۃ، وذلک یعرف بالقرائن، وإلا فعلی قولہ کما في التتارخانیۃ وغیرھا.ثم إن البیع وإن صح لکنہ یکرہ کما في الغایۃ‘‘.(کتاب الأشربۃ: ١٠/ ٤٨، ٤٧، ٤٦، ٢١:رشیدیۃ)
وفیہ أیضاً:
(ویحرم أکل البنج والحشیشۃ)......ھي ورق القنب (والأفیون)؛ لأنہ مفسد للعقل، ویصد عن ذکر اللہ، وعن الصلاۃ‘‘.(کتاب الأشربۃ:١٠/ ٤٨، ٤٧، ٤٦، ٢١:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/ 335-336