بارہ ربیع الاول کو روڈوں پر شمعیں جلانا،چراغاں کرنا،مٹھائی تقسیم کرنے کا حکم

بارہ ربیع الاول کو روڈوں پر شمعیں جلانا،چراغاں کرنا،مٹھائی تقسیم کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں بارہ ربیع الاول کی شب روڈ پر شمعیں جلائی جاتی ہیں،اور چراغاں کیا جاتا ہے،جس میں مخلوط نظام ہوتا ہے (یعنی مرد اورخواتین)دونوں شریک ہوتے ہیں،تصویر کشی اور ویڈیو گرافی بھی ہوتی ہے،اب سوال یہ پوچھنا ہے کہ آیا اس طرح سے روڈوں پر شمعیں جلانا،راستے بند کرنا اور چراغاں کرنا شریعت کی رو سے ٹھیک ہے؟نیزاس موقع پر مٹھائی اور دیگر پکوان بھی لوگوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں؟اس کا کیا حکم ہے۔

جواب

بارہ ربیع الاول کی شب میں اس طرح کی مجالس قائم کرنا،جس میں شمعیں جلائی جائیں،راستے بند کئے جائیں،ویڈیوگرافی کی جائے،مخلوط نظام ہو،مٹھائیاں تقسیم کی جائیں اور کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا جائے،یہ سب قطعاً اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ :’’من أحدث في أمرنا ھٰذا مالیس منہ فھو رد‘‘یعنی جس نے ہمارے دین میں ایسی چیز ایجاد کی جو دین میں نہیں تھی پس وہ مردود ہے،اس لیے ایسی مجالس میں شرکت سے خود بھی بچنا اور دوسروں کو بھی بچانا لازم اور ضروری ہے۔
لما في التنزیل:
«ولا تبذر تبذیرا إن المبذرین کانوا إخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہٖ کفوراً».(سورۃ بني اسرائیل،الآیۃ:26،27)
وفي المدخل:
’’وھٰذہ المفاسدۃ مرکبۃ علی فعل المولد،إذا عمل باسماع،فان خلامنہ وعمل طعاما فقط ونوی بہ المولد،ودعا إلیہ الاخوان،ومسلم من کل تقدم ذکرہ فھو بدعۃ بنفس نیۃ فقط؛إذ إن ذلک زیادۃ في الدین ولیس من عمل الماضیین،وإتباع السلف أولٰی‘‘.(فصل في المولد،المجلد الأول،الجزء الثاني،ص:۱۱،العصریۃ).
وفیہ أیضاً:
وینبغي في لیالي رمضان کلھا أن یزاد فیھا الوقود قلیلاً زائداً علی العادۃ لاجل اجتماع الناس وکثرتھم فیہ دون غیرہ....بخلاف ماأحدثہ بعض الناس الیوم من زیادۃ وقود القنادیل الکثیرۃ الخارجۃ عن الحد المشروع لما فیھا من إضافۃ المال والسرف والخیلاء؛ سیما إذا انضاف إلی ذلک ما یفعلہ بعضھم من وقود السمع وما یرکز فیہ،فإن کان فیہ شيئ من الفضۃ أو الذھب فاستعمالہ محرم لعدم الضرورۃ إلیہ، وإن کان بغیرھما فھو إضافۃ مال وسرف وخیلاء‘‘.(فصل في المولد،المجلد الأول،الجزء الثاني،ص:۱۱،العصریۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/26