سنار کا اپنی بیچی ہوئی چیز کو دوبارہ کم قیمت پر واپس لینا

Darul Ifta

سنار کا اپنی بیچی ہوئی چیز کو دوبارہ کم قیمت پر واپس لینا

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سنار جب ایک تولہ سونا واپس لیتا ہے،تو ڈیڑھ ماشہ کم کردیتا ہے ایک ماشہ ملاوٹ یعنی گیلٹ اور نصف ماشہ خالص سونا کم کردیتا ہے، تو کیا واپسی میں یہ نصف ماشہ خالص سونا کم کرنا شرعا درست ہے یا نہیں؟
اسی طرح جب بھی وہ ایک تولہ سونا واپس خریدتے ہیں ،تو فروخت کی قیمت سے بھی دو، تین ہزار روپے کم میں خریدتے ہیں، تو کیا ایسا کرنا یعنی خریدتے وقت نصف ماشہ خالص سونا کم کرنا اور قیمت میں بھی ٢، ٣ ہزار روپے کم کرنا شرعا درست ہے یا نہیں؟

وضاحت:مذکورہ صورتیں خریداری کے ساتھ متعلق ہے، اقالہ کے ساتھ متعلق نہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب سنار سونا واپس خریدتا ہے، تو وہ کم قیمت پر خرید سکتا ہے، بشرطیکہ خریداری ہو، اقالہ نہ ہو، اور بائع مشتری کو کسی قسم کا دھوکہ نہ دے۔

لما في الہدایۃ:
’’قال: ''ونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن النجش''...... قال: ''وعن تلقي الجلب'' وھذا إذا کان یضر بأھل البلد فإن کان لا یضر، فلا بأس بہ، إلا إذا لبس السعر علی الواردین فحینئذ یکرہ لما فیہ من الغرور والضرر‘‘.(کتاب البیوع، فصل فیما یکرہ: ٣/ ١٠٠، ٩٩: البشری)
وفیہ ا أیضا:
’’قال: ومن کان لہ علی أخر عشرۃ دراہم، فباعہ الذي علیہ العشرۃ دینارا بعشرۃ دراہم ودفع الدینار وتقاصا العشرۃ بالعشرۃ فہو جائز‘‘.
’’ومعنی المسألۃ إذا باع بعشرۃ مطلقۃ، ووجھہ أنہ یجب بھذا العقد ثمن یجب علیہ تعیینہ بالقبض لما ذکرنا، والدین لیس بہذہ الصفۃ فلا تقع المقاصۃ بنفس البیع لعدم المجانسۃ، فإذا تقاصا یتضمن ذلک فسخ الأول والإضافۃ إلی الدین؛ إذ لولا ذلک یکون استبدالا ببدل الصرف، وفي الإضافۃ إلی الدین تقع المقاصۃ بنفس العقد علی ما نبینہ، والفسخ قد یثبت بطریق الاقتضاء کما إذا تبایعا بألف ثم بألف وخمسمائۃ، وزفر یخالفنا فیہ؛ لأنہ لا یقول بالاقتضاء، وھذا إذا کان الدین سابقا، فإن کان لاحقا فکذلک في أصح الروایتین؛ لتضمنہ انفساخ الأول، والإضافۃ إلی دین قائم وقت تحویل العقد، فکفی ذلک للجواز‘‘.(کتاب الصرف:٣/ ١٦١،١٦٠:البشری).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:174/ 348-347

 

footer