احتیاطا قضاء نمازیں پڑھنا کیسا ہے؟

احتیاطا قضاء نمازیں پڑھنا کیسا ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص قضاء عمری یعنی نمازوں کی قضاء کرنا چاہے، تو اگر نمازوں کی قضاء کرتے کرتے اس کی نمازیں پوری ہوئیں، لیکن اس کو یہ معلوم نہیں کہ میری کتنی نمازیں قضاء ہوئی تھیں، تو پھر علماء فرماتے ہیں کہ یہ شخص قضاء کرتا رہے، اگر جتنی نمازیں قضاء ہوں وہ پوری ہوگئیں، اس کے بعد بھی یہ قضاء میں مشغول ہو تو اس کو نفلوں کا اجر ملتا ہے یہ بات تو اور نمازوں میں سمجھ میں آتی ہے، لیکن علمائے کرام فرماتے ہیں کہ نفل نماز چوں کہ طاق ہوتی نہیں بلکہ جفت ہوتی ہے ،تو مغرب کی تین رکعت میں ایسا کرے کہ آخری قعدہ کرلے، لیکن قعدہ کے بعد چوتھی رکعت کے لیے کھڑے ہوجائے اور آخر میں سجدہ سہو کرے۔
اب سوال یہ ہے کہ سجدہ سہو تو بھولنے سے واجب ہوتا ہے، جب کہ یہ نمازی تو تیسری رکعت سے قصدا چوتھی رکعت کی طرف کھڑا ہوا ہے۔

جواب

جس شخص کو یہ معلوم نہیں کہ میرے ذمہ قضاء نمازیں کتنی ہیں، تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ ظن غالب پر عمل کرے اگر کوئی بھی صورت متعین نہ ہوتی ہو، محتاط اندازے کے مطابق قضاء کرے، حتی کہ اس کو یقین ہوجائے کہ میرے ذمہ قضاء نمازیں باقی نہیں رہیں۔
صورت مسئولہ میں ذکر کردہ صورت کی بھی گنجائش ہے، لیکن فجر اور عصر کے بعد نہ پڑھے، اس صورت میں مغرب کی نماز میں تیسری رکعت میں قعدہ کرکے چوتھی رکعت ملانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں ہے۔
نیز رباعی اور ثلاثی نماز کی ہر رکعت میں سورت بھی پڑھے۔
لما في حاشیۃ الطحطاوي:
’’خاتمۃ: من لا یدري کمیۃ الفوائت یعمل بأکبر رأیہ، فإن لم یکن لہ رأي یقض، حتی یتیقن أنہ لم یبق علیہ شيء ومن قضی صلاۃ عمرہ مع أنہ لم یفتہ شيء منھا احتیاطا قیل یکرہ وقیل لا؛ لأن کثیرا من السلف قد فعل ذلک لکن لا یقضي في وقت تکرہ فیہ النافلۃ، والأفضل أن یقرأ في الأخیرتین السورۃ مع الفاتحۃ؛ لأنھا نوافل من وجہ، فلأن یقرأ الفاتحۃ والسورۃ في أربع الفرض علی احتمالہ أولی من أن یدع الواجب في النفل، ویقنت في الوتر، ویقعد قدر التشھد في ثالثتہ، ثم یصلي رکعۃ رابعۃ فإن کان وترا، فقد أداہ وإن لم یکن، فقد صلی التطوع أربعا، ولا یضرہ القعود وکذا یصلي المغرب أربعا بثلاث قعدات، والاشتغال بقضاء الفوائت أولی وأھم من النوافل، إلا السنۃ المعروفۃ وصلاۃ الضحی، وصلاۃ التسبیح، والصلاۃ التي وردت في الأخبار فتلک بنیۃ النفل وغیرھا بنیۃ القضاء، کذا في المضمرات عن الظھیریۃ وفتاوی الحجۃ ومرادہ بالسنۃ المعروفۃ المؤکدۃ‘‘.(کتاب الصلاۃ: ٤٤٧:رشیدیۃ)
(وکذا في أحسن الفتاوی: باب صفۃ الصلاۃ: ٣/ ٢١، ٢٢، ط: سعید)
وفي التنویر مع الدر:
’’(بترک) متعلق بیجب (واجب) مما مر في صفۃ الصلاۃ (سھوا) فلا سجود في العمد‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو: ٢/ ٤٥٥: رشیدیۃ).فقط. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/59