کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص مغرب کی نماز پڑھ کر ہوائی جہاز میں سوار ہوا،جہاز بلندی پر گیا تو سورج نظر آرہا تھا اور دوسرے مقام پر جاکر جہاز اترا، اب مغرب کی نماز کا اعادہ ہو گا،یا پہلی جو ادا کرکے سوار ہوئے تھے کافی ہو گی،ایسے ہی روزے کے بارے میں بھی فرمائیں؟
مغرب کی نماز دوبارہ پڑھنا واجب نہیں روزہ بھی صحیح ہوگیا، مگر قواعد سے معلوم ہوتا ہے کہ دوبارہ غروب تک امساک واجب ہے۔
”ومن أراد أن یصلی فی سفینۃ فرضاً أو نفلاً، فعلیہ أن یستقبل القبلۃ متی قدر علی ذلک، ولیس لہ أن یصلی الی غیر جھتھا حتی لودارت السفینۃ، وھو یصلی، وجب علیہ أن یدور الی جھۃ القبلۃ حیث دارت۔۔۔۔ ومحل کل ذلک إذا خاف خروج الوقت قبل أن تصل السفینۃ أو القاطرۃ إلی المکان الذی یصلی فیہ صلاۃً کاملۃ، ولا تجب علیہ العادۃ، ومثل السفینۃ القطر البخاریۃ البریۃ والطائرات الجویۃ.” ونحوما.”( کتاب الفقہ علی المذاھب الأربعۃ، کتاب الصلاۃ ١/٧١٩٧، دارالفکر بیروت)
”فلوغربت ثم عادت ھل یعود الوقت بالظاھر، نعم ،قال ابن عابدین۔ رحمہ اﷲ تعالی:(قولہ:الطاھر نعم)بحث لصاحب النھر حیث قال:ذکر الشافعیۃ أن الوقت یعود”لأن علیہ الصلاۃ والسلام نام فی حجر علی رضی اﷲ عنہ حتی غربت الشمس الخ۔۔۔۔قالت:علی أن الشیخ إسماعیل ردما بحثہ فی النھر تبعا للشافعیۃ، بأن صلاۃ العصر بغیبوبۃ الشفقق تصیر قضاء ورجوعھا لا یعیدھا أداء، وما فی الحدیث خصوصیۃ لعلی کما یعطیہ قولہ علیہ الصلاۃ والسلام إنہ کان فی طاعتک وطاعۃ رسولک. قلت:ویلزم علی الأول بطلان صوم من أفطر قبل ردھا وبطلان صلاتہ المغرب لوسلمنا عود الوقت بعودھا للکل.”(الدرالمختار مع رد، کتاب الصلوٰۃ ٣٦٠،٣٦١/١،سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی