ہر چار رکعت تراویح کے بعد آرام کرنے کا حکم

ہر چار رکعت تراویح کے بعدآرام کرنے کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد بیٹھنے کا کیا حکم ہے اور کتنی دیر بیٹھناچاہیے اور اس میں کیا کرنا چاہیے؟تفصیل سے بیان کیجیے۔

جواب

ہر ترویحہ پر، یعنی چار رکعت پڑھ کر اتنی ہی دیر، یعنی چار رکعت کے موافق جلسہ استراحت مستحب ہے (اسی طرح پانچویں ترویحہ کے بعد وتر سے پہلے بھی جلسہ مستحب ہے، لیکن اگر مقتدیوں پر اس سے گرانی ہو تو نہ بیٹھے ۔
اور اتنی دیر تک اختیار ہے کہ تسبیح ،قرآن شریف ،نفلیں جو دل چاہے پڑھتا رہے اہل مکہ کا معمول طواف کرنے اور دو رکعت نفل پڑھنے کا ہے اور اہل مدینہ کا معمول چار رکعت پڑھنے کا،اور یہ دعا بھی منقول ہے۔
سبحان ذي الملک والملکوت سبحان ذي العزۃ والعظمۃ و القدرۃ والکبریا، والجبروت سبحان الملک الحي الذي لایموت سبوح قدوس ربنا ورب الملائکۃ والروح لا إلہ إلا اﷲ نستغفر اﷲ نسألک الجنۃ ونعوذبک من النار (ردالمختار:کتاب الصلاۃ، باب الوتر النوافل:٢/٤،سعید)
دس رکعت پر جلسہ استراحت کرنا مکروہ تنز یہی ہے۔
ویستحب الجلوس بین الترویحتین قدر ترویحۃ وکذا بین الخامسۃ والوتر، کذا في الکافي، وھکذا في الھدایۃ، ولو علم أن الجلوس بین الخامسۃ والوتر یثقل علی القوم ،لایجلس ، ھکذا في السراجیۃ.(الفتاویٰ الھندیۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویحِ: ١/١١٥، رشیدیہ)
فیجلس بین کل تروحیتین مقدار ترویحۃ وھو مخیر فیہ إن شاہ جلس ساکتا وإن شاء ھلل أو سبح أو قرأ أو صلی نافلۃ منفردا۔۔۔۔ فإن عادۃ أھل مکۃ أن یطوفوا بعد کل أربع أسبوعا، ویصلوا رکعتي الطواف وعادۃ أھل المدینۃ أن یصلوا أربع رکعات.(الحلبي الکبیر:فصل في النوافل، التراویح، ص: ٤٠٤، سھیل اکیڈمی، لاھور)
 وإن استراح علی خمس تسلیمات:أي عقب عشر رکعات قال بعضھم:لابأس بہ:أي لا یکرہ وقال أکثر المشایخ: لا یستحب ذلک لمخالفۃ عمل أھل الحرمین وقولہ :لا یستحب کنایۃ عن الکراھۃ التنزیھیۃ. (الحلبي الکبیر: کتاب الصلوۃ، فصل في النوافل: التراویح: ص:٤٠٤، سھیل اکیڈمی، لاہور)
ومن المکروہ ما یفعلہ بعض الجھال من صلاۃ رکعتین منفردا بعد کل رکعتین بالأنھا بدعۃ (الحلبي الکبیر: کتاب الصلاۃ، فصل في النوافل، التراویح: ص: ٤٠٤، سھیل اکیڈمی، لاھور).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی