کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے شہر چمن سے ٹیکسی کا کرایہ عام طور پر کوئٹہ تک ایک سو پچیس روپے ہے اور حکومت کی طرف سے کوئی ”ریٹ” یا کرایہ متعین نہیں ہے، تو ہم کبھی سواری کے کم ہونے کی وجہ سے کم کرایہ لیتے ہیں،مثلاً:سو روپے او رکبھی سواری زیادہ ہونے یا گاڑیوں کے کم ہونے کی وجہ سے زیادہ کرایہ مثلاً:ایک سو ،پچاس ،یا دو سو تک کرایہ لیتے ہیں، تو کیا یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر حکومت کی طرف سے کرائے کا ریٹ متعین ہو تو کیا صورت ہو گی؟
ٹیکسی کے مالک اور سواری کے درمیان جتنا کرایہ طے ہو جائے وہی کرایہ ادا کرنا لازم ہے،لہٰذا صورت مسؤلہ میں اگر حکومت کی طرف سے کرایہ کی مقدار ( ریٹ)متعین نہ ہو تو ٹیکسی والے اور سواری کے درمیان جتنا کرایہ طے ہو جائے، ٹیکسی والے کے لیے لینا شرعاً جائز ہے۔
''عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:من حمل علینا السلاح، فلیس منا ومن غشّنا، فلیس منا''.(الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان: ١/٧٠، قدیمي)
''لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ''.(الدر المختار، کتاب الغضب: ٦/٢٠٠، سعید)
''أکل المال بالباطل علی وجہین: أحدہما: أخذہ علی وجہ الظلم والسرقۃ والخیانۃ والغصب وما جری مجراہ، والآخر: أخذہ من جہۃ محظورۃ، نحو الثمار، وأجرۃ الغناء ۔۔۔ إلخ.(أحکام القرآن للجصاص، سورۃ البقرۃ، باب ما یحلہ حکم الحاکم وما لا یحلہ: ١/٣٤٤، قدیمي)
وقال تعالی: (ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان).(المائدۃ: ٢)
البتہ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اصل کرایہ سے کئی گناہ زیادہ کرایہ وصول کرنا بد دیانتی ہے اور اگر حکومت کی طرف سے کرائے کی مقدار(ریٹ)مقرر ہے، تو پھر اس سے زیادہ وصول کرنا ٹیکسی ڈرائیور کے لیے جائز نہیں۔
''وأما شرائط الصحۃ:فمنھا:رضا المتعاقدین.ومنھا:أن یکون المعقود علیہ وھو المنفعۃ معلوماً علماً یمنع المنازعۃ،فإن کان مجھولاجھالۃ مفضیۃً إلی المنازعۃ یمنع صحۃ العقد، وإلا فلا''.(الفتاوی العالمکیریۃ، کتاب الإجارۃ، الباب الأول: ٤/٤١١، رشیدیۃ)
''(أمر السلطان إنما ینفذ)أي یتبع،ولاتجوز مخالفتہ۔۔۔صاحب البحر ذکر ناقلا عن أئمتناأن طاعۃ الإمام في غیر معصیۃ واجبۃ،فلو أمر بصوم یوم، وجب۔۔۔وقد منا أن السلطان لو حکم بین الخصمین، ینفذ في الأصح''.(رد المحتار، کتاب القضائ، مطلب طاعۃ الإمام واجبۃ: ٥/٤٢٢، سعید)
''الأصل الذي تقررہ النصوص والقواعد الشرعیۃ ترک الناس أحرارا في بیعھم وشرائھم وتصرفھم في ممتلکاتہم وأموالھم۔۔۔ لیس ھناک تحدید لنسبۃ معینۃ للربح یتقید بھا التجار في معاملاتہم، بل ذلک متروک لظروف التجارۃ عامۃ، وظروف التاجر والسلع مع مراعاۃ ما تقضی بہ الآداب الشرعیۃ من الرفق والقناعۃ والسماحۃ والتسیر''.(الفقہ الإسلامي وأدلتہ، کتاب البیوع: ٧/٥١٦٣، رشیدیۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی