کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنی مارکیٹ کے اوپر نماز کے لیے دو تین کمروں کو خاص کیا ہوا ہے، اور اس کے لیے باقاعدہ امام اور موٴذن مقرر کیا ہے، اگرچہ وہ شرعی طور پر مسجد تو نہیں ہے، کیا اس کے اندر پانچویں نمازیں ادا کرنا درست ہیں یا نہیں؟ اور امام اور موٴذن کو باقاعدہ امام اور موٴذن کہا جائے گا یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں نماز کے لیے مختص جگہ ”جائے نماز“ کے حکم میں ہے، لہذا اگر قریب میں کوئی مسجد نہیں تو اس طرح جماعت سے نماز پڑھنا جائز ہے، لیکن مسجد کا ثواب نہیں ملے گا،مالک مکان نے امامت اور اذان کے لیے جن کی تعیین کی ہو، ان کو وہاں کے باقاعدہ امام اور موٴذن کی حیثیت حاصل ہوگی۔
لما في رد المحتار:
«قال في القنية: واختلف العلماء في إقامتها في البيت، والأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا في الأفضلية». (كتاب الصلاة: 1/554، سعيد)
وفيها أيضًا:
«(والحائل لا يمنع) الاقتداء (إن لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو روية ..... (ولم يختلف المكان) حقيقة المسجد وبيت في الأصح، قينة. وقال الشامي رحمه الله وكنا البيت حكمه حكم المسجد في ذلك لا حكم الصحراء». (رد المحتار على الدر المختار: 1/586، سعيد).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر: 154/127