کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شحص سب سے پہلے مسجد میں آکر صف اوّل میں رومال وغیرہ رکھ کر جگہ پکڑتا ہے، پھر وضو کے لیے جاتا ہے، کیا یہ عمل درست ہے؟ اگر کوئی اور اس رومال کو ہٹا کر وہاں بیٹھ جائے تو اس کا بیٹھنا درست ہے، یعنی اس میں پہلے کی حق تلفی ہوتی ہے؟
بہتر تویہی ہے کہ صفِ اوّل میں نماز پڑھنے کا شوق اور جذبہ رکھنے والا شخص وضو و دیگر ضروریات سے فارغ ہو کر مسجد میں آئے، لیکن اگر کبھی کبھار ایسا موقع پیش آجائے کہ وضو کرنا بھول جائے یا مسجد میں ہی وضوکی نیت سے ذرا پہلے آجائے اور صفِ اوّل میں رومال وغیرہ ڈال کر وضو کرنے کے لیے چلا جائے، اور نیت جلد سے جلد پہنچنے کی ہو تو وہ اس جگہ کا مستحق ہوجاتا ہے، بعد میں آکر اگر اس جگہ کوئی بیٹھ جاتا ہے تو یہ اس کی طر ف سے زیادتی شمار ہوگی اور پہلا شخص اگر چاہے تو اس کو اٹھا بھی سکتا ہے۔
''(قَوْلُہُ وَتَخْصِیصُ مَکَان لِنَفْسِہِ)؛ لِأَنَّہُ یُخِلُّ بِالْخُشُوعِ: کَذَا فِی الْقُنْیَۃِ: أَیْ لِأَنَّہُ إذَا اعْتَادَہُ ثُمَّ صَلَّی فِی غَیْرِہِ یَبْقَی بَالُہُ مَشْغُولًا بِالْأَوَّلِ۔۔۔لَہُ فِی الْمَسْجِدِ مَوْضِعٌ مُعَیَّنٌ یُوَاظِبُ عَلَیْہِ وَقَدْ شَغَلَہُ غَیْرُہُ، قَالَ الْأَوْزَاعِیُّ: لَہُ أَنْ یُزْعِجَہُ، وَلَیْسَ لَہُ ذَلِکَ عِنْدَنَا اہـ أَیْ لِأَنَّ الْمَسْجِدَ لَیْسَ مِلْکًا لِأَحَدٍ قُلْت: وَیَنْبَغِی تَقْیِیدُہُ بِمَا إذَا لَمْ یَقُمْ عَنْہُ عَلَی نِیَّۃِ الْعَوْدِ بِلَا مُہْلَۃٍ، کَمَا لَوْ قَامَ لِلْوُضُوء ِ مَثَلًا وَلَا سِیَّمَا إذَا وَضَعَ فِیہِ ثَوْبَہُ لِتَحَقُّقِ سَبْقِ یَدِہِ تَأَمَّلْ.'' (رد المحتار، کتاب الصلاۃ ١/٦٦٢، سعید)
''وہذا کمن بسط بساطا أو مصلی أی سجادۃ فی المسجد أو المجلس فإن کان المکان واسعا لا یصلی ولا یجلس علیہ غیرہ وإن کان المکان ضیقا جاز لغیرہ أن یرفع البساط ویصلی فی ذلک المکان أو یجلس.'' (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الصلاۃ، باب احکام الجنائز، ٦١٥، قدیمی).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی