کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کاشف کی منکوحہ حمل سے تھی اور کاشف نے یہ گمان کیا کہ حمل میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس لیے اس غلط فہمی کی بنیاد پر دستخط کئے کیا طلاق واقع ہوگئی؟ کیا صرف والدین کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے طلاق دے تو کیا طلاق واقع ہوگی؟
شوہر کا طلاق نامہ پڑھ کر اور اس کو سمجھ کر دستخط کر دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں کاشف کی منکوحہ کو تین طلاقیں (طلاق مغلظہ)واقع ہوچکی ہیں، اگر چہ اس کی منکوحہ حمل سے تھی۔لما في الشامية:
’’وإن كانت مرسومة يقع الطلاق، نوى أو لم ينو‘‘.(كتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالكتابة، 442/4، مكتبة رشيدية)
وفي المحيط البرهاني:
’’يجب أن يعلم بأن الكتابة نوعان: مرسومة وغير مرسومة. فالمرسومة: أن تكتب على صحيفة مصدرا ومعنونا وإنها على وجهين: الأول: أن تكتب هذا كتاب فلان بن فلان إلى فلانة. أما بعد: فأنت طالق. وفي هذا الوجه يقع الطلاق عليها في الحال. وإن قال: لم أعن به الطلاق لم يصدق في الحكم‘‘.(كتاب الطلاق، الفصل السادس في إيقاع الطلاق بالكتابات،427/3،المكتبة الغفارية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/267