ایک شخص نے اپنی بیوی کو پہلے ایک طلاق دے کر رجوع کرلیا تھا، پھر ایک مدت بعد دونوں کا لڑائی جھگڑا ہوا تو شوہر نے بیوی کو میکے پہنچا کر دو دس دس روپے کے نوٹ دے کر کہا کہ یہ اپنی امانت لے لو، شوہر کی نیت اس سے مزید دو طلاقوں کی تھی، اور اسی وقت کسی کے سامنے یہ بھی کہا کہ میں اپنی بیوی کو فارغ کیا ہے،آپ حضرات شریعت مطہرہ کی رو سے راہنمائی فرمائیں کہ کتنی طلاقیں ہوئیں؟یہ بھی واضح رہے کہ شوہر کے علاقے میں شوہر کا بیوی کو نوٹ دے کر طلاق دینے کا رواج ہے۔
صورت مسئولہ میں چوں کہ ایک طلاق دے کر رجوع کرنے کے بعد شوہر نے جھگڑے کے بعد بیوی کو دو دس روپے کے نوٹ طلاق کی نیت سے دے کر یہ کہا کہ “یہ لو اپنی امانت لے لو” اور وہاں کے عرف میں نوٹ دے کر طلاق دینے کا رواج بھی ہے، اس لیے بقیہ دو طلاقیں بھی واقع ہوگئیں، اب حلالہ شرعیہ کے بغیر نہ رجوع ممکن ہے اور نہ ہی تجدید نکاح، لہٰذا ان پر لازم ہے کہ فوراً علیحدگی اختیار کریں۔
لمافي «مجموع رسائل ابن عابدين»:
«وحاصله: أن حكم العرف يثبت على أهله عامًا أو خاصًا، فالعرف العام في سائر البلاد يثبت حكمه على أهل سائر البلاد، والخاص في بلدة واحدة يثبت حكمه على تلك البلدة فقط .... وأما العرف الخاص: إذا عارض النص المذهبي المنقول عن صاحب المذهب فهو معتبر كما مشى عليه أصحاب المتون والشروح والفتاوى في الفروع التي ذكرنا وغيرها، وشمل العرف الخاص القديم والحادث كالعرف العام (وبما قررناه) أيضًا اتضح لك معنى ما قاله في القنية وأشرنا له في البيت السابق من أنه ليس للمفتي ولا للقاضي أن يحكما بظاهر الرواية ويتركا العرف». (نشر العرف في بناء بعض الأحكام على العرف: 2/228، 231، المكتبة الأزهرية للتراث)
وفي «البناية» شرح الهداية:
«ولو كان في عرف القوم عبارة عن البدن يقع الطلاق بإضافته إلى اليد. والطلاق مبني على العرف، حتى لو لم يكن في بلاد ذلك العرف لا يقع». (كتاب الطلاق، باب إيقاع الطلاق: 6/362، المكتبة الحقانية)
وفي «حاشية ابن عابدين»:
«وعرف حادث وهو إرادة الطلاق .... والفتوى على العرف الحادث؛ لأن كلام كل عاقد وحالف ونحوه يحمل على عرف وإن خالف ظاهر الرواية كما قالوا: من أن الحاكم أو المفتي ليس له أن يحكم أو يفتي بظاهر الرواية ويترك العرف». (كتاب الطلاق، مطلب: أنت علي حرام: 5/78، رشيدية)
وفي «رد المحتار»:
«قلت: ومقتضى كونه كناية أنه يقع بشرط النية، وقد عده في البحر في باب الكنايات منها وكذا عد منها وهبتك طلاقك أو أودعتك طلاقك وأقرضتك طلاقك». (كتاب الطلاق، مطلب: علي الطلاق من ذراعي: 4/456، رشيدية).ف
قط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 172/21