نماز کی حالت میں سامنےلکھی ہوئی قرآنی آیات یا دعائیں پڑھنا

نماز کی حالت میں سامنےلکھی ہوئی قرآنی آیات یا دعائیں پڑھنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل عام طور پر مساجد میں قبلہ کی سمت والی دیوار میں مختلف قسم کی قرآنی آیات کے کتبے، اوقات نماز کے چارٹ او ربہت سے دوسری دعاؤں کے فریم لگے ہوتے ہیں،اگر نمازی کی بے خیالی میں ان پر نظر پڑ جائے اور وہ انہیں پڑھنے میں مشغول ہو جائے تو یاد آنے پر نماز بالکل فاسد ہو جائے گی یا سجدہ سہو واجب ہو گا؟شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے ؟

جواب

اسی طرح بے خیالی میں نظر پڑنے پر اگر پڑھ لے تو نماز فاسد نہیں ہوتی ۔

لما فی البحر الرائق:

( قوله: ولو نظر إلى مكتوب وفهمه أو أكل ما بين أسنانه أو مر مار في موضع سجوده لاتفسد وإن أثم )، أما الأول فلأن الفساد إنما يتعلق في مثله بالقراءة وبالنظر مع الفهم لم تحصل وصحح المصنف في الكافي أنه متفق عليه بخلاف من حلف لايقرأ كتاب فلان فنظر إليه وفهمه فإنه يحنث عند محمد؛ لأن المقصود فيه الفهم والوقوف على سره أطلق المكتوب فشمل ما هو قرآن وغيره لكن في القرآن لاتفسد إجماعاً بالاتفاق كما في النهاية وشمل ما إذا استفهم أو لا لكن إذا لم يكن مستفهماً لاتفسد بالإجماع وإن كان مستفهماً ففي المنية تفسد عند محمد والصحيح عدمه اتفاقاً لعدم الفعل منه ولشبهة الاختلاف، قالوا: ينبغي للفقيه أن لايضع جزء تعليقه بين يديه في الصلاة؛ لأنه ربما يقع بصره على ما في الجزء فيفهم ذلك فيدخل فيه شبهة الاختلاف ا ه".(88/4)

وفی الدر المختار:

''و(لایفسدھا نظرہ إلی مکتوب وفھمہ، ولومستفھما وإن کرہ (قولہ: ولومستفھما) اشاربہ إلی نفی ماقیل إنہ لومستفھما تفسد عند محمد رحمہ اﷲ تعالی قال : فی البحر والصحیح عدمہ اتفاقاً لعدم الفعل منہ ولوشبھۃ الاختلاف۔۔۔۔(قولہ: وإن کرہ) أی لاشتغالہ بما لیس من أعمال الصلوٰۃ وأمّا لو وقع علیہ نظرہ بلاقصد وفھمہ فلایکرہ.''(کتاب الصلاۃ، ١/٦٣٤، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی