کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز میں عمل کثیر کسے کہتے ہیں؟
حضرات فقہائے کرام رحمہم اللہ عمل کثیر کی تعریف میں پانچ اقوال ذکر فرماتے ہیں،جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
٭…نمازی کا ایسا عمل جس کو دور سے دیکھنے والے کو ظن غالب ہوجائے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، تو وہ عمل کثیر ہے،جس عمل سے نماز میں نہ ہونے کا ظن غالب نہ ہو بلکہ شبہ ہو ،تو وہ قلیل ہے۔
٭…وہ عمل جو عادۃً دونوں ہاتھوں سے کیا جائے وہ کثیر ہے، اگر چہ وہ عمل ایک ہاتھ سے کیا جارہا ہو، جس طرح عمامہ باندھنا اور جو عمل ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہو، وہ دونوں ہاتھوں سے بھی کرے تو وہ قلیل ہے، جیسے :ٹوپی سر سے اُتارنا۔
٭…پے درپے تین حرکات عمل کثیر ہے، بصورت دیگر وہ قلیل ہے۔
٭…ایسا عمل کثیر ہے، جو فاعل کو ایسا مقصود ہو کہ اس کو عادۃً مستقل مجلس میں کرتا ہو، جیسے:حالت نماز میں بچہ نے عورت کا دودھ پی لیا۔
٭…نمازی کی رائے پر موقوف ہوگا ،وہ جس عمل کو کثیر گمان کرے وہ عمل کثیر ہے اور جس کو قلیل گمان کرے وہ قلیل ہے۔
ان پانچوں اقوال میں سے سب سے پہلے قول کو فقہائے کرام نے اصح اور راجح قرار دیا ہے۔لما في التنویر مع الدر:
’’(و) یفسدھا(کل عمل کثیر) لیس من اعمالھا ولا لإصلاحھا ،وفیہ أقوال خمسۃ:أصحھا (ما لاشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیھا)وإن شک أنہ فیھا أم لا،فقلیل‘‘.(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا:464/2،رشیدیۃ)
وفي الھندیۃ:
’’والثالث:أنہ لو نظر إلیہ ناظرین من بعید، إن کان لاشک أنہ في غیر الصلاۃ فھو کثیر مفسد،وإن شک فلیس بمفسد،وھذا ھوالأصح‘‘.(کتاب الصلاۃ،النوع الثانی في الأفعال المفسدۃ للصلاۃ:160/1،دارالفکر).
فقط. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:182/67