کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شریعت میت کو دفنانے کے لیے کتنی دیر انتظار کا حکم دیتی ہے، اگر یہ انتظار شریعت کے بتائے ہوئے وقت سے تجاوز کرجائے تو کیا گناہ کبیرہ ہے، علماء کرام حدیث شریف کی روشنی میں جلدی کرو جلدی کرو کے الفاظ میں وضاحت کرتے ہیں، اگر میت کے وارث کا گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کا مطالبہ ہو تو کیا شریعت اجازت دیتی ہے ؟
جنازہ میں بلا ضرورت تاخیر مکروہ ہے،البتہ ضرورت کی وجہ سے تاخیرِ قلیل (اتنی تاخیر کہ بستی والے جنازہ میں شریک ہو سکیں) کی گنجائش ہے،بنا بریں بلا ضرورت تاخیر کسی کے لیے بھی درست نہیں ہے۔عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أسرعوا بالجنازۃ فإن تک صالحۃ فخیر تقدمونھا وإن تک سوی ذلک فشر تضعونہ عن رقابکم ۔(الصحیح للبخاري:کتاب الجنائز، باب السرعۃ بالجنازۃ: ا/١٧٦، قدیمی)
وفي الدر: وکرہ تأخیر صلاتہ ودفنہ لیصلي علیہ جمع عظیم بعد صلاۃ الجمعۃ۔
وفي الرد: وحد التعجیل المسنون أن یسرع بہ بحیث لایضطرب المیت علی الجنازۃ للحدیث ''أسرعوا بالجنازۃ، فإن کانت صالحۃ قدمتموھا إلی الخیر، وإن کانت غیر ذلک فشر تضعونہ عن رقابکم'' والأفضل أن یعجل بتجھیزہ کلہ من حین یموت بحر.(ردالمحتار: کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، مطلب في حمل المیت: ٢/٢٣٢، سعید)
ویستحب أیضا: أن یسارع إلی قضاء دینہ وإبرائہ منہ، ویبادر إلی تجھیزہ، ولایؤخر. فإن مات فجأۃ ترک حتی یتیقن بموتہ، کذا في الجوہرۃ النیرۃ.(الھندیۃ: کتاب الصلاۃ، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الأول: ١/١٥٧،رشیدیہ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی