نماز جنازہ میں تکرار کا حکم

Darul Ifta

نماز جنازہ  میں تکرار کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی نماز جنازہ ہو رہی ہے اور چند حضرات کھڑے ہیں اور نماز جنازہ میں شرکت نہیں کر رہے، جب لوگ نماز جنازہ سے فارغ ہوتے ہیں اور یہ لوگ جو کھڑے تھے، نماز جنازہ الگ سے دوبارہ پڑھتے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ ایک میت کا ایک ہی جگہ میں دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا جائزہے یا ناجائز ؟دونوں صورتوں میں دلائل کے ساتھ مسئلہ واضح فرمائیں۔
دوسرا مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ ایک شخص کراچی میں فوت ہوتا ہے اور اس کا آبائی گاؤں کہیں اور ہے، اس کی نمازجنازہ کراچی میں ادا کر دی گئی اور اس میں چند ایسے لوگوں نے بھی شرکت کی جو میت کے ساتھ آبائی گاؤں بھی جائیں گے،کیا جو لوگ میت کے ساتھ آبائی گاؤں جارہے ہیں یہ وہاں نماز جنازہ میں دوبارہ شرکت کر سکتے ہیں یا کہ نہیں ؟مسئلہ دلائل کی روشنی میں واضح فرمائیں۔

جواب

ازروئے شریعت جنازہ صرف ایک ہی دفعہ پڑھنا مشروع ہے ،ایک سے زیادہ دفعہ پڑھنا درست نہیں ، لیکن اگر میت کے ولی کی اجازت کے بغیر کسی اجنبی شخص نے نماز پڑھائی تو ولی کو اعادہ کا حق ہے ،البتہ فرض اداہوگیا ہے، دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں ،ولی کے علاوہ دیگر لوگوں کو اس کی اجازت نہیں اور نہ ضرورت ہے ۔
بہتر تو یہ ہے کہ جہاں انتقال ہو ،وہیں میت کو دفن کیا جائے، (تاہم نماز جنازہ ایک ہی مرتبہ پڑھی جائے ، دوبارہ نہ پڑھنا چاہیے جس نے پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو کسی کے لیے جائز نہیں ،البتہ اگر ولی نے نہیں پڑھی تھی تو اس کے ساتھ وہ لوگ شریک ہو سکتے ہیں جنہوں نے پہلے نہ پڑھی ہو ،لہٰذا میت کے ساتھ جانے والے گاؤں میں دوبارہ نماز جنازہ نہیں پڑھ سکتے ۔

في مجمع الأنھر: ''(ولا یصلي) أي لا یجوز أن یصلي(غیر الولي) الأحق(بعد صلاتہ): أي الولي الأحق؛ لأن الفرض تؤدی بالأولی والتفل بھا غیر مشروع ''۔ (مجمع الأنھر، کتاب الصلاۃ، فصل في الصلاۃ علی المیت: ١/١٨٣، دارإحیاء التراث العربي)
قال العلامۃ المرغیناني:''وإن صلی الولی لم یجز لأحد أن یصلي بعدہ؛ لأن الفرض یتأدی بالأول، والتنفل بھا غیر مشروع، ولھذا رأینا الناس ترکوا عن آخرھم الصلاۃ علی قبر النبي علیہ الصلاۃ والسلام وھو الیوم کما وضع۔(الھدایۃ: کتاب الصلاۃ:باب الجنائز، فصل في الصلوۃ علی المیت: ١/١٨٠، شرکت علمیۃ، ملتان)
قال العلامۃ البابرتي في شرحۃ علی الھدایۃ:وقال الإمام الولواجي في فتاواہ: رجل صلی علی جنازۃ والولي خلفہ ولم یرض بہ، إن تابعہ وصلی معہ لایعید،لأنہ صلی مرۃ، وإن لم یتابعہ فإن کان المصلي السلطان أوالإمام الأعظم في البلدۃ أو القاضي أو الوالي علی البلدۃ أو إمام حي لیس لہ أن بعید؛ لأن ھؤلاء ھم الأولون منہ وإن کان غیرھم فلہ الإعادۃ۔۔۔وقال في قولہ: وإن صلی الولي لم یجز لأحد أن یصلي بعدہ،تخصیص الولي لیس بقید لما أنہ لوصلی السطان أو غیرہ من ھو أولی من الولي في الصلاۃ علی المیت ممن ذکرنا لیس لأحد أن یصلي بعدہ أیضاً علی ماذکرنا من روایۃ الولوالجي والتجنیس، وھذا الذي ذکرہ بقولہ لم یجز لأحد أن یصلي بعدہ مذھبنا ۔ (العنایۃ علی ھامش فتح القدیر: کتاب الصلاۃ، فصل في الصلاۃ علی المیت:١/٨٣، رشیدیۃ)
قال العلامۃ الکاساني: ''ولا یصلی علی میت الإمرۃ واحدۃ، لاجماعۃ ولا وحدانا عندنا، إلا أن یکون الذین صلوا علیہا أجانب بغیر أمر الأولیائ، ثم حضر الولي فحینئذ لہ أن یعیدھا''۔(بدائع الصنائع ،کتاب الصلاۃ، فصل في صلاۃ الجنازۃ: ٢/٤٧، رشیدیۃ کوئٹہ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer