کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میت کے چند ورثاء ہیں ،ان میں سے ایک یا دو نے نماز جنازہ پڑھ لیا، باقی موجود نہ تھے، اب جنہوں نے نہیں پڑھا وہ دوبارہ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟ مثلاً ایک شخص کے پانچ لڑکوں میں سے دو نے پڑھ لیا اور تین رہ گئے کیا ان تینوں کے لیے والد کی نماز جنازہ دوبارہ پڑھنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو قبل الدفن یا بعدہ، اور بعد میں کتنی مدت تک ؟
واضح رہے کہ میت کے ایسے ورثاء کہ جو ولایت اور حقوق میں برابر ہیں ،ان میں سے اگر کسی ایک نے نماز جنازہ پڑھ لیا یا اس کی اجازت سے جنازہ کی نماز ایک دفعہ پڑھی گئی ہو تو پھر دوبارہ دوسرے لوگوں کے لیے نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں ہے،ہاں اگر غیرِ ولی نے ولی کی غیر موجودگی میں بغیر اجازتِ ولی نماز پڑھی ،اس وقت ولی کو اختیار ہوگا کہ وہ دوبارہ نماز ادا کریں، دفن سے پہلے بھی اور بعد میں بھی، جب تک میت کے پھٹنے اور گلنے کا خیال غالب نہ ہو،لہٰذا مذکورہ فی السوال صورت میں باقی غیر حاضر لڑکوں کے لیے دوبارہ جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔ (ولہ۔۔۔۔ الإذن لغیرہ فیھا لأنہ حقہ فیملک إبطالہ (إلا)أنہ(إن کان ھناک یساویہ فلہ)أي: لذلک المساوي ولوأصغرسنا(المنع)لمشارکتہ في الحق، أما البعید فلیس لہ المنع(فإن صلی غیرہ)أي: الولی (ممن لیس لہ حق التقدم)علی الولي(ولم یتابعہ)الولي(أعاد الولي) ولو علی قبرہ إن شاہ لأجل حقہ لا لإسقاط الفرض، ولذا قلنا: لیس لمن صلی علیھا أن یعید مع الولي لأن تکرارھاغیر شروع(وإلا)أي:وإن صلی من لہ حق التقدم کقاض أو نائبہ أو إمام الحي أومن لیس لہ حق التقدم وتابعہ الولي (لا) یعید لأنھم أولی بالصلاۃ منہ. وإن صلی ھو) أي: الولي (بحق) بأن لم یحضر من یقدم علیہ (لا یصلی غیرہ بعدہ) وإن حضر من لہ التقدم لکونھا بحق. أما لو صلی الولي بحضرۃ السلطان مثلا أعاد السلطان، کما في المجتبی وغیرہ، وفیہ حکم صلاۃ من لا ولایۃ لہ کعدم الصلاۃ أصلا فیصلي علی قبرہ مالم یتمزق. (الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنائز: ٣/١٤٣ـ١٤٦، دارالمعرفۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی