نماز جمعہ کی شرائط اور دیہات میں نماز جمعہ کا حکم

نماز جمعہ کی شرائط اور دیہات میں نماز جمعہ کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ
۱……قریہ کبیرہ اور قریہ صغیرہ کی کیا تعریف ہے؟
۲……قریہ کبیرہ میں آبادی کتنی ہونی چاہیے؟
۳……جس جگہ جمعہ کی شرائط نہ پائی جائیں وہاں نماز جمعہ ادا ہوجائیگی یا نہیں؟یا ظہر کی نماز ادا کرنا ضروری ہوگی؟
۴……جواز جمعہ کی کیا شرائط ہیں؟
۵……جہاں جمعہ کی شرائط نہ پائی جائیں وہاں اگر کوئی آدمی نماز جمعہ چھوڑ کر ظہر کی نماز پڑھے اور یہ کہے کہ یہاں جمعہ کی شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے میں ظہر پڑھتا ہوں، کیا ایسے شخص کو قریہ والے ملامت کرسکتے ہیں یانہیں؟اگر کوئی شخص ملامت کرے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

۴،۲،۱……قریہ کبیرہ وہ جگہ ہے جہاں کی آبادی کم از کم چار ہزار یا اس سے زائد ہو،اور اس میں ایسا بازار موجود ہو جس میں چالیس پچاس دُکانیں متصل ہوں، بازار روزانہ لگتا ہو، اور اس میں روز مرہ کی ضروریات ملتی ہوں، مثلاً:ڈاکٹر یا حکیم کی دُکان ہو، جوتا،کپڑا، غلہ،گوشت اور گھی وغیرہ کی دوکانیں ہوں، اسی طرح معمارومستری وہاں ہوں،ڈاکخانہ ،پولیس کا تھانہ یا چوکی بھی ہو،اور اس میں مختلف محلے مختلف ناموں سے موسوم ہوں۔
لہٰذامندرجہ بالا شرائط جس شہر یا قریہ میں پائی جاتی ہوں، وہاں جمعہ جائز ہے اورجمعہ کی نماز ادا ہوجائے گی۔
۳……جس جگہ جمعہ کی شرائط نہ پائی جائیں ،وہاں نماز جمعہ جائز نہیں،ظہر کی نماز ادا کی جائے گی۔
۵…… اگر واقعی وہاں شرائط جمعہ مفقود ہیں،توقریہ والے خود قابل ملامت ہیں کہ ایک غیر شرعی کام کا ارتکاب کررہے ہیں۔
لما في حاشیۃ إبن عابدین:
’’قال في شرح المنية: والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الاحكام ويقيم الحدود، وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الاحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الاصح.اهـ‘‘.(کتاب الصلاۃ،باب الجمعۃ:۶/۳،دارالمعرفۃ).
وفي البدائع:
’’ولنا ما روي عن النبي أنه قال:’’لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع‘‘. وعن علي رضي الله عنه:’’ لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع‘‘. وكذا النبي كان يقيم الجمعة بالمدينة وما روى الإقامة حولها، وكذا الصحابة رضي الله عنهم فتحوا البلاد، وما نصبوا المنابر إلا في الأمصار، فكان ذلك إجماعا منهم على أن المصر شرط....... وأما الحديث فقد قيل: إن جؤاثى مصر بالبحرين واسم القرية ينطلق على البلدة العظيمة لأنها اسم لما اجتمع فيها من البيوت قال تعالى:˒˒واسأل القرية التي كنا فيها˓˓، وهي مصر‘‘.(کتاب الصلاۃ:۲/ ۱۹۲-۱۹۱،دارالنشر).
وفي رد المحتار:
’’قوله: (ويشترط إلخ) قال في النهر: ولها شرائط وجوب وأداء منها: ما هو في المصلي.ومنها ما هو في غيره، والفرق أن الاداء لا يصح بانتفاء شروطه ويصح بانتفاء شروط الوجوب‘‘.(باب الجمعۃ:۶/۳،دارالمعرفۃ).فقط.واللہ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر: 23-27/ 159

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی