کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ خواتین کے لیے نمازوں کے مسنون اوقات کون سے ہیں؟ آیا کہ ہر نماز کی آذان کے ساتھ ہی نماز پڑھ لیا کریں،یا کسی اور وقت میں؟ سنا ہے کہ عشاء کی نماز تہائی رات تک موٴخر کرنا مستحب ہے؟ اس بارے میں ذرا تفصیل سے بیان فرما دیں۔
عورتوں کے لیے فجر کی نماز اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے، باقی نمازوں میں مردوں کی جماعت کا انتظار کریں، جماعت ختم ہونے کے بعد پڑھیں۔
عشاء کی نماز ایک تہائی رات تک موٴخر کرنا مستحب عمل ہے، اس کے بعد آدمی رات تک مباح ہے، اس کے بعد مکروہ وقت شروع ہوجاتا ہے، البتہ اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ کسی مستحب عمل کو اختیار کرنے سے فرض یا واجب کا ترک لازم نہ آئے، مثلا: عشاء کی نماز ایک تہائی رات تک موٴخر کرنے کی وجہ سے جماعت کی نماز چھوٹ جائے… یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے۔
لما في التنویر مع الدر:
(والمستحب) للرجل (الابتداء) في الفجر (بإسفار والختم به) هو المختار .....(إلا لحاج بمزدلفة) فالتغليس أفضل لمرأة مطلقًا، وفي غير الفجر الأفضل لها انتظار فراغ الجماعة.(2/30، مطلب: في طلوع الشمس من مغربها، كتاب الصلاة، دار المعرفة)
وفي البحر:
الأفضل للمرأة في الفجر الغلس: وفي غيرها الانتظار إلى فراغ الرجال عن الجماعة. (1/469)
(والعشاء إلى الثلث) أي: ندب تأخيرها إلى ثلث الليل لما رواه الترمذي وصححه: «لولا أن أشق على أمتي لأخرت العشاء إلى ثلث الليل أو نصفه.وروى الإمام أحمد وغيره أنه عليه الصلاة والسلام كان يستحب أن يؤخر العشاء، وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها. (1/430، كتاب الصلاة، رشيدية)
وفي التبيين:
قال رحمه الله:(والعشاء إلى الثلث) أي: ندب تأخير العشاء إلى ثلث الليل وهذا نص على أن التأخير إليه مستحب. (1/224، 225، كتاب الصلاة، دار الكتب العلمية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 155/66