کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا ہے لیکن اس کی ایک دو رکعتیں نکل چکی ہیں، اب وہ امام کے ساتھ آخری قعدہ میں صرف التحیات پڑھ کر خاموش بیٹھا رہے گا ،یا اس کو درود شریف اور دعا پڑھنی ہو گی؟رہنمائی فرمائیں۔
اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ التحیات آہستہ آہستہ پڑھے تاکہ امام کے سلام تک یہ تشہدہی پورا ہو جائے،اور اگر تشہد جلدی پڑھ لے تو پھر خاموش رہے ،یا شہادتوں کو دہراتا رہے ،دورود شریف اور دعا نہیں پڑھنی چاہیے۔
''وإذا فرغ أي المسبوق من التشھد قبل سلام الامام یکررہ من أولہ وقیل یکرر کلمۃ التشھد وقیل یسکت وقیل یأتی بالصلوٰۃ والصحیح أنہ یترسل لیفرغ من التشھد عند سلام الامام.'' (الحلبی الکبیر، ص٤٦٩، سھیل اکیڈیمی، لاہور)
(والمسبوق من سبقه الإمام بها أو ببعضها وهو منفرد) حتى يثني ويتعوذ ويقرأ، وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بها لكراهتها۔(الدر المختار:باب الامامة، 596/1، ط: دار الفکر)
ومنھا ان المسبوق ببعض الرکعات یتابع الامام فی التشہد الاخیرو اذا اتم التشہد لا یشتغل بما بعدہ من الدعوات ثم ما ذا یفعل تکلموا فیہ وعن ابن شجاع انہ یکرر التشہد ای قولہ أشہد ان لا الہ الا اﷲ وھو المختار کذا فی الغیاثیۃ والصحیح أن المسبوق یترسل فی التشہد حتی یفرغ عند سلام الامام کذا فی الوجیز للکردری وفتاویٰ قاضی خان وھکذا فی الخلاصۃ وفتح القدیر۔( الھندیۃ : باب الامامة، الفصل السادس فیما یتابع الامام وفیما لا یتابعه:91/1، ط: دار الفکر).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی