کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک معذور خاتون اپنے مرض الموت میں روزہ نہیں رکھ سکی تھی، صرف ستائیس رمضان کا روزہ اپنی جان پر کھیل کر رکھ لیا تھا،باقی نہیں رکھ سکی اور اس سلسلے میں کچھ وصیت بھی نہیں کی، تو کیا ان روزوں کا کفارہ ورثاء ادا کرسکتے ہیں؟ اور کتنا کفارہ ادا کریں؟
اگر یہ خاتون اسی بیماری میں انتقال کر گئیں او ران کو تندرست ہو کر قضا روزہ رکھنے کا موقع نہ ملا تو ان پر روزوں کی قضا ،یا فدیہ لازم نہیں او راگر وہ بعد تندرست ہو کر اتناعرصہ زندہ رہیں کہ ان روزوں کی قضا کرسکیں تو ان پر روزوں کی قضا لازم تھی ،اگر قضا نہیں کی تو فدیہ ادا کرنے کی وصیت ضروری تھی،لیکن چوں کہ وصیت نہیں کی اس لیے ورثہ پر کفارہ دینا ضروری نہیں، اگر اپنی مرضی سے دینا چاہیں تو اپنے مال میں سے دے سکتے ہیں، ایک روزہ کا فدیہ صدقۃ الفطر کی مقدار کے برابر ہے، یعنی پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت۔''وقضوا لزوما ما قدروا بلا فدیۃ و بلا ولاء.۔۔۔ فإن ماتوا فیہ أي: في ذلک العذر فلا تجب علیہم الوصیۃ بالفدیۃ لعدم إدراکہم عدۃ من أیام أخر ۔۔۔وفدی لزوما عنہ أي:عن المیت ولیہ۔۔۔۔۔۔ کالفطرۃ قدرا بعد قدرتہ علیہ۔۔۔وفوتہ۔۔۔بوصیتہ من الثلث۔۔۔وإن لم یوص وتبرع ولیہ بہ جاز إن شاء اللّٰہ ویکون الثواب للولي.اختیار.(الدر المختار مع الدر، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسد، فصل في العوارض المبیحۃ لعدم الصوم: ٢/٤٢٣۔٤٢٥،سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی