متعینہ مدت میں کام نہ کرنے کی وجہ سے ٹھیکیدار پرجرمانے کا حکم

متعینہ مدت میں کام نہ کرنے کی وجہ سے ٹھیکیدار پرجرمانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازمت کرتا ہوں، ہمارے شعبہ میں تعمیراتی کام ٹھیکیداروں کے ذریعہ کرایا جاتا ہے، اس کا طریقہ کاریہ ہے کہ جب بھی کسی تعمیراتی کام کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمارے شعبہ میں اس کام کا ایک تفصیلی خاکہ تیار کیا جاتا ہے، جس میں کام کی قسم، مقدار اور اس کے معیار کے بارے میں تفصیلی مندرجات ہوتے ہیں، اس کام کی تخمینی لاگت، متعلقہ قوانین کے مطابق لگائی جاتی ہے اور اس کام کا ایک تکمیلی وقت بھی مقرر کیا جاتا ہے۔

ٹھیکیدار حضرات کام کی قسم، مقدار اور معیار(جو کہ شعبہ کا بیان کردہ ہوتا ہے)کے مطابق اپنی تخمینی لاگت، خفیہ طور پر، تحریری شکل میں ہمارے شعبہ میں جمع کراتے ہیں، جس ٹھیکیدار کی تحریر کردہ تخمینی لاگت سب سے کم ہوتی ہے ،کام اس کو دے دیا جاتا ہے، اس سلسلے میں ایک تحریری معاہدہ منتخب ٹھیکیدار کے ساتھ عمل میں آتا ہے، جس پر ہمارے شعبہ کے اعلیٰ افسران اور منتخب ٹھیکیدار کے دستخط ثبت ہوتے ہیں۔

اس معاہدہ کی ایک شق یہ ہے کہ اگر ٹھیکیدار مقررہ کام مقررہ وقت میں مکمل نہیں کر سکا اور اس کی تکمیل میں دس روز سے زائد کی تاخیر کر دی تو وہ اپنی بیان کی ہوئی تخمینی لاگت کے دس فیصد کے مساوی”زرِ تلافی برائے تاخیری تکمیل”کے طور پر ادارے کو ادا کرے گا،یہ زر تلافی ٹھیکیدار کے بل(Bill)سے ادارہ از خود منہا کر لیتا ہے، مذکورہ بالاشق کی رو سے یہ بات قابل توجہ نہیں ہے کہ کام کی مقدار تخمینہ کے مطابق روبہ عمل آئی ہے ،یاکم ہو گئی ہے ،یا بڑھ گئی ہے۔

مثال کے طور پر معاہدہ کے مطابق ایک کام کی تخمینی لاگت ٹھیکیدار کی تحریر کردہ قیمت کے مطابق ایک لاکھ روپیہ ہے اور کام کا تکمیلی وقت ایک ماہ ہے، اب اگر کام کی مقدار کم ہو جانے سے کام کی حقیقی قیمت اور ادارے کے ذمے واجب الأداء رقم ستر ہزار روپیہ بنتی ہے اور ٹھیکیدار نے کام چالیس روز میں مکمل کیا ہے تو ادارہ ایک لاکھ روپیہ کے دس فیصد کے مطابق دس ہزار روپیہ بطور ”زرتلافی برائے تاخیری تکمیل” ٹھیکیدار کو واجب الأداء رقم میں سے منہا کرلے گا اور ٹھیکیدار کو ساٹھ ہزار روپیہ ادا کر دیئے جائیں گے۔

۱۔ کیا اس طرح معاہدے کے مطابق”زر تلافی برائے تاخیری تکمیل” کی وصولی شریعت کی رو سے جائز ہے؟

۲۔ کیا اس معاہدے کےمطابق”زرتلافی برائے تاخیری تکمیل”کام کی حقیقی قیمت(جو کہ مندرجہ بالامثال میں ستر ہزار روپیہ ہے) کے اعتبار سے منہا کی جانی چاہیے؟ اور کیا اس طرح زر تلافی کی رقم کو ادارے کا وصول کرنا شرعاً جائز ہو گا۔

۳۔اگر مندرجہ بالا دونوں صورتیں شرعاً ناجائز ہیں تو ہم اس کے مطابق عمل کرنے کی صورت میں روزِ آخرت مسؤل تو نہیں ہوں گے، جب کہ ہمارا عمل مروّجہ قوانین کے مطابق ہے اور ان قوانین کی تشکیل میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے؟

جواب

۱،۳۔ صورت مسؤلہ میں کام وقت پر مکمل نہ کرنے کی صورت میں ٹھیکیدار سے رقم بطور جرمانہ کے وصول کرنا جائز نہیں، البتہ کام کو متعینہ مدت پر مکمل کروانے کے لیے دیگر متبادل جائزطریقے استعمال کیے جاسکتے ہیں، مثلاً ایک لاکھ کا ٹھیکہ نوے ہزار میں طے کیا جائے اور ٹھیکیدار سے یہ کہا جائے کہ اگر مقررہ مدت پر کام مکمل کر لیا تو دس ہزار آپ کو بطور انعام دیئے جائیں گے، اسی طرح دس فیصدجرمانہ جو مذکور فی السوال ہے،انعامی رقم کےطور پر ٹھیکہ کرتے وقت الگ کر لیا جائے اور بقیہ رقم پرمعاہدہ کیا جائے۔
''وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْہَبَ عَدَمُ التَّعْزِیرِ بِأَخْذِ الْمَالِ''.الخ (رد المحتارعلی الدر المختار،کتاب الحدود،باب التعزیر: ٤/٦١،٦٢، سعید)

''لَا یَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِینَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَیْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ۔۔۔وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْہَبَ عَدَمُ التَّعْزِیرِ بِأَخْذِ الْمَالِ''.(البحر الرائق: کتاب الحدود، باب حدالقذف، فصل في التعزیر: ٥/٦٨، رشیدیۃ)

''والإجارۃ لا تخلوا:إما أن تقع علی وقت معلوم، فإن وقعت علی عمل معلوم فلا تجب الأجرۃ إلا بإتمام العمل إذا کان العمل مما لا یصلح أولہ إلابآخرہ،وإن کان یصلح أولہ دون آخرہ، فتجب الأجرۃ بمقدار ماعمل''.(النتف في الفتاوی، کتاب الإجارۃ: ٣٣٨، سعید)

''استأجرہ لیبني لہ حائطا بالآجر والجص،وعلم طولہ وعرضہ،جاز۔۔۔ولو استأجرہ لحفر البئر إن لم یبین الطول والعرض والعمق،جاز استحسانا ویؤخذ بوسط ما یعملہ الناس،کذا في الوجیزللکردري''.(الفتاویٰ العالمکیریۃ،کتاب الإجارۃ،الباب الخامس،الفصل الرابع:٤/٤٥١، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی