فوت شدہ نمازوں کا حساب کب سے کریں گے؟

فوت شدہ نمازوں کا حساب کب سے کریں گے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ بچہ اور بچی کی بلوغت کی عمر آخری حد کیا ہے؟ کیا فوت شدہ نمازوں کا حساب بلوغت کی عمر کے بعد لگایاجائے گا،یا اس سے پہلے؟ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ بچہ جب دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر مارنے کا حکم دیا گیا ہے،تو کیا دس سال کی عمر سے نمازکی قضاء  فرض ہو گئی، یا بلوغت کی عمر سے فوت شدہ نمازوں کا حساب کیا جائے گا؟

جواب

نمازوں کا حساب بلوغت کی عمر کے بعد ہی لگایا جائے گا ،کیوں کہ نماز کی فرضیت کے لیے جو شرائط ہیں ،ان میں سے ایک شرط بالغ ہونا ہے، نابالغ بچے پر نماز فرض نہیں ہے،حدیث میں جو دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر بچوں کو بطور تنبیہ مارنے کا حکم ہے ،وہ اس لیے ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے ہی وہ نماز کے عادی اور پابندی ہو جائیں اور بلوغ کے بعد، ان کی کوئی نماز بھی فوت نہ ہو، کیوں کہ ایمان کے بعد شریعت میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے جو کسی حامل میں بھی معاف نہیں۔ (الطحطاوی علی المراقی، ص : ۱۰۲)

فقہانے بلوغت کی کم از کم مدت لڑکے کے لیے بارہ سال اور لڑکی کے لیے نو سال بیان فرمائی ہے،اس عمر کے بعد جب بھی بلوغت کی شرائط (احتلام، انزال یا حیض وغیرہ) پائی جائیں، بالغ ہونے کا حکم لگایا جائے گا اور اگر اس عرصے کے بعد بلوغت کی شرائط نہ پائی جائیں، یہاں تک کہ دنوں کی عمر پندرہ سال ہو گئی تو وہ ہر حال میں بالغ سمجھے جائیں گے اور شریعت کے تمام احکامات کی ادائیگی ان پر لازم اور فرض ہو جائے گی ۔

(ہِیَ فَرْضُ عَیْنٍ عَلَی کُلِّ مُکَلَّفٍ) أَیْ بِعَیْنِہِ؛ وَلِذَا سُمِّیَ فَرْضَ عین۔۔۔(وَإِنْ وَجَبَ ضَرْبُ ابْنِ عَشْرٍ عَلَیْہَا بِیَدٍ لَا بِخَشَبَۃٍ) لِحَدِیثِ.''
قال ابن عابدین۔ رحمہ اﷲ تعالیٰ۔ہَذَا مُبَالَغَۃٌ عَلَی مَفْہُومِ قَوْلِہِ: کُلِّ مُکَلَّفٍ، کَأَنَّہُ قَالَ وَلَا یُفْتَرَضُ عَلَی غَیْرِ الْمُکَلَّفِ.''(الدر المختار مع الرد، کتاب الصلوٰۃ ١/٣٥١،٣٥٢، سعید)

''(قَوْلُہُ: وَإِنْ وَجَبَ إلَخْ) ہَذَا مُبَالَغَۃٌ عَلَی مَفْہُومِ قَوْلِہِ: کُلِّ مُکَلَّفٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کَأَنَّہُ قَالَ وَلَا یُفْتَرَضُ عَلَی غَیْرِ الْمُکَلَّفِ وَإِنْ وَجَبَ أَیْ عَلَی الْوَلِیِّ ضَرْبُ ابْنِ عَشْرٍ، وَذَلِکَ لِیَتَخَلَّقَ بِفِعْلِہَا وَیَعْتَادَہُ لَا لِافْتِرَاضِہَا.''( الدر المختار،کتاب الصلوٰۃ ١/٣٥٢، سعید)

''(بُلُوغُ الْغُلَامِ بِالِاحْتِلَامِ وَالْإِحْبَالِ وَالْإِنْزَالِ) وَالْأَصْلُ ہُوَ الْإِنْزَالُ (وَالْجَارِیَۃِ بِالِاحْتِلَامِ وَالْحَیْضِ وَالْحَبَلِ) وَلَمْ یَذْکُرْ الْإِنْزَالَ صَرِیحًا لِأَنَّہُ قَلَّمَا یُعْلَمُ مِنْہَا (فَإِنْ لَمْ یُوجَدْ فِیہِمَا) شَیْء ٌ (فَحَتَّی یَتِمَّ لِکُلٍّ مِنْہُمَا خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً بِہِ یُفْتَی) لِقِصَرِ أَعْمَارِ أَہْلِ زَمَانِنَا(وَأَدْنَی مُدَّتِہِ لَہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ سَنَۃً وَلَہَا تِسْعُ سِنِینَ)ہُوَ الْمُخْتَارُ.'' (الدر المحتار مع تنویر الابصار، کتاب الحجر، فصل،٦/١٥٣،١٥٤، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی