غیر المغضوب کی ضاد کو دال کے مشابہ پڑھنے کا حکم

غیر المغضوب کی ضاد کو دال کے مشابہ پڑھنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ایک شخص نماز کے اندر غیر المغضوب علیہم کی ضاد کو جان بوجھ کر اپنے مخرج سے ادا نہیں کرتا اور مثل د ال کے ضادکو ادا کر دیتا ہے، آیا اس کی اقتداء کرنا کیسا ہے،نماز درست ہو جائے گی یا نہیں،نیز اگر مخرج ضادکی ادا ہو تو کیا معافی ہوں گے اور اگر ضادکی جگہ دال جس طرح کہ بعض مساجد کے امام حضرات پڑھتے ہیں،ان دونوں لفظوں کے معانی بتائیں کہ دال پڑھیں تو کیا معنی ہوں گے اور ضادکی صورت میں کیا معنی ہوگا؟

جواب

شخص مذکور کی اقتداء کرنا درست نہیں!اور جو نمازیں اس کے پیچھے پڑھی گئیں ان کا اعاد ہ بھی ضروری ہے”مغضوب” کا معنی ہے”جن پر غضب ہوا” ۔ ”مغدوب” سخت گوشت کو کہتے ہیں۔ (حوالے کے لیے ”لسان العرب” ملاحظہ فرمائیں)۔

لما فی الخانیۃ :

"و إن ذكر حرفًا مكان حرف و غير المعني، فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ: الطالحات مكان الصالحات، تفسد صلاته عند الكل، و إن كان لايمكن الفصل بين الحرفين الا بمشقة كالظاء مع الضاد و الصاد مع السين، و الطاء مع التاء، اختلف المشائخ فيه، قال أكثرهم لاتفسد صلاته ...و لوقرأ الدالين بالدال تفسد صلاته". ( كتاب الصلاة، فصل في القراءة في القرآن،١ / ١٢٩ - ١٣١،ط:دارالكتب العلمية)

''فمن حافۃ اللسان من أقصاھا إلی الأضراس الضاد.'' (الحیط البرھانی، کتاب الصلاۃ، ١/٣٦٢، المکتبۃ الغفاریۃ، کوئتہ)
''والضاد من حافتہ إذ ولیا: الأضراس من أیسر أو یمناھا.'' (متن المقدمۃ الجزریۃ، باب مخارج الحروف ١٢، مکتبۃ القرأۃ ،لاہور).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی