کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر رمضان المبارک میں عشاء کی جماعت نہ مل سکے لیکن تراویح میں شامل ہوجائے ،تو تراویح ختم ہونے کے بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھیں گے یا الگ سے؟صحیح طریقہ کیا ہے؟
واضح رہے کہ رمضان المبارک میں اگر نماز عشاء ادا نہیں کی ، تو تراویح اور وتر پڑھنا جائز نہیں، لہٰذا درست طریقہ یہ ہے کہ پہلے نماز عشاء ادا کرے، پھر تراویح اور وتر کی نماز ادا کرے۔لما في الھندیۃ:
’’والصحیح أن وقتھا ما بعد العشاء إلی طلوع الفجر قبل الوتر وبعدہ حتی لو تبین أن العشاء صلاھا بلا طھارۃ دون التراویح والوتر أعاد التراویح مع العشاء دون الوتر؛ لأنھا تبع للعشاء ھذا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ فإن الوتر غیر تابع للعشاء في الوقت عندہ والتقدیم إنما وجب لأجل الترتیب وذلک یسقط بعذر النسیان فیصح إذا أدی قبل العشاء بالنسیان بخلاف التراویح فإن وقتھا بعد أداء العشاء فلا یعتد بما أدي قبل العشاء وعندھما الوتر سنۃ العشاء کالتراویح فابتداء وقتہ بعدأداء العشاء فتجب الإعادۃ إذا أدي قبل العشاء وإن کان بالنسیان عندھما کالتراویح وبالجملۃ إعادۃ الوترمختلف فیھا وأما إعادۃ التراویح وسائر سنن العشاء فمتفق علیھا إذا کان الوقت باقیا ھکذا في التبیین.... ولو صلی التراویح مرتین في مسجد واحد یکرہ کذا في فتاویٰ قاضي‘‘. (کتاب الصلاۃ، فصل في التراویح: 175/1، دارالفکر بیروت)
وفي التنویر مع الدر:
’’(لا) یصح أن (یقدم علیھا الوتر) إلا ناسیا (لوجوب الترتیب) لأنھما فرضان عند الإمام‘‘. (کتاب الصلاۃ، مطلب في الصلاۃ الوسطیٰ: 23/2، رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی(فتویٰ نمبر:183/218)