کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی شخص صرف دسویں محرم کو روزہ رکھتا ہے، نویں یا گیارھویں کو اس کے ساتھ روزہ نہیں رکھتا تو اس طرح روزہ رکھنا درست ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا بھی روزہ رکھنا چاہیے، اگر نویں کا روزہ نہ رکھ سکے تو گیارھویں کا روزہ رکھے، اس لیے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ یہود شکرانہ کے طور پر عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں ،تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ سال عاشورہ کے روزہ کے ساتھ نو محرم کو بھی روزہ رکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا، جس کی بنا پر فقہاءِ کرام نے عاشورہ کے ساتھ نو محرم کے روزہ کو مستحب قرار دیا ہے اوریہود کے ساتھ مشابہت کی بنا پر صرف عاشورہ کا روزہ رکھنے کو مکروہِ تنزیہی قرار دیا ہے، لیکن اگر کسی بنا پر تین یا دو روزے رکھنا دشوار ہو تو صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لینا چاہیے؛ تاکہ اس کی فضیلت سے محرومی نہ ہو۔ نیز حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:
ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ ﷺ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔’’ویستحب أن یصوم یوم عاشوراء بصوم یوم قبلہ أو یوم بعدہ لیکون مخالفا لأہل الکتاب‘‘.(رد المحتار، کتاب الصوم:٢/٣٧٥،سعید)
’’والمکروہ......وتنزیھا کعاشوراء وحدہ‘‘.
وفي الرد:قولہ:(وعاشوراء وحدہ)أي:مفردا عن التاسع أو عن الحادي عشر إمداد؛ لأنہ تشبہ بالیہود.(رد المحتار،کتاب الصوم:٢/٣٧٥،سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی