کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مورث نے اپنی موجودگی میں تمام جائیداد پوتے کے لیے ہبہ کردی کیا مورث کی وفات کے بعد تمام جائیداد اسی ایک پوتے کو ملے گی یا مورث کے تمام اصولی ورثاء کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی؟
مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ مورث ظریف ملک نے ضعیف العمر وشیخ فانی اور مرض الوفات کی تصرف کی حیثیت میں تمام جائیداد اپنے ایک پوتے کو ہبہ کردیا تھا۔ اور مرتے دم تک مورث ظریف ملک کا اپنی تمام جائیداد پر قبضہ بھی رہا تھا۔ کیا مورث کی وفات کے بعد یہ تمام جائیداد ایک ہی پوتے کو ملے گی یا مورث کے 2 بیٹے اور 4 بیٹیوں کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم کی جائے گی؟
کیا یہ تمام جائیداد پوتے کو ملے گی یا مورث کے اصولی ورثاء کو ملے گی۔
صورت مسئولہ میں مورث کا اپنے پوتے کو اس طرح ملکیت ہبہ کرنے سے ہبہ مکمل نہیں ہوا، لہٰذا مورث کی ملکیت میں اس کے تمام ورثاء وارثت کے شرعا حقدار ہیں، تقسیم شرعی یہ ہے:
سب سے پہلے مرحوم کی تجہیز و تکفین کے درمیانی اخراجات نکالے جائیں گے (بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے تبرعا ادا نہ کئے ہوں) اس کے بعد مرحم کے ذمے کوئی واجب الاداء قرض یا دیگر مالی واجبات ہوں تو وہ ادا کیے جائیں، پھر اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی حد تک اس کو نافذ کردیا جائے، پھر بقیہ ترکہ کو ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے۔
تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ کل جائیداد کے آٹھ (8) حصے کردیے جائیں، جن میں سے 2,2 حصے مرحوم کے دو بیٹومیں سے ہر ایک کو اور 1,1 حصہ مرحوم کی چار بیٹیوں میں سے ہر ایک کو دیا جائے۔
فیصدی لحاظ سے%25 دو بیٹوں میں سے ہر ایک کو اور%12.5 چار بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ملے گا۔لما في التنزیل:
«یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْنِ ».(سورۃ النساء: 11)
وفي السراجي:
’’قال علماؤنا رحمھم اللہ:تتعلق بترکۃ المیت حقوق أربعۃ مرتبۃ: یبدأ بتکفینہ وتجھیزہ من غیر تبذیر ولا تقتیر، وتقضی دیونہ من جمیع ما بقي من مالہ، ثم تنفذ وصایاہ من ثلث ما بقي بعد الدین، ثم یقسم الباقي بین ورثتہ بالکتاب والسنۃ والإجماع‘‘.(باب الحقوق الأربعۃ المتعلقۃ بترکۃ المیت: 10-14، البشری)
وفیہ أیضًا:
’’وأما لبنات الصلب فأحوال ثلاث:النصف للواحدۃ والثلثان للاثنتین فصاعدۃ ومع الابن للذکر مثل حظ الأنثیین وہو یعصبھن. (فصل في النساء: 32,33، البشری)
وفي الدر مع الرد:
’’(و) شرائط صحتھا (في الموھوب أن یکون مقبوضًا، غیر مشاع، ممیزًا، غیر مشغول) کما سیتصح‘‘.
قولہ: (أن یکون مقبوضًا) فلا یثبت الملک للموھوب لہ قبل القبض‘‘.(کتاب الھبۃ: 12/538، رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/145