کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ شوال کے چھ روزے رکھنے کی کیا حیثیت ہے؟ بعض حضرات سے سنا ہے کہ ثواب ملتا ہے، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مکروہ ہے،برائے کرام اس مسئلہ کا شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں،کیا یہ روزے قرآن وحدیث سے ثابت ہیں؟
ماہ ِ شوال کے چھ روزوں کا ثبوت اور اس کی فضیلت احادیث مبارکہ ،ائمہ مجتہدین ،فقہائے کرام اور جمہورمشائخ عظام کی تعلیمات اور ان کی مستند کتابوں سےنہ صرف ثابت ہے،بلکہ یہ روزے رکھنا مستحب ہیں۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اس کے بعد ماہ شوال میں چھ نفلی روزے رکھے اس کا یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہوگا‘‘۔(صحیح مسلم)
ایک معمولی محنت پر اتنا اجر وثواب اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت ہے اور عمر بھر کے لیے روزے کا ثواب حاصل کرنے کا نہایت آسان اور کم خرچ نسخہ ہے، حق تعالیٰ ہم سب کو توفیق عنایت فرمائیں۔اس پر مزید آسانی یہ کہ ان کے رکھنے میں اختیار ہے، خواہ شروع شوال میں رکھیں یا درمیان میں یا آخر میں، یہ بھی اختیار ہے خواہ مسلسل رکھیں یا متفرق، شرعا کسی طرح کوئی پابندی نہیں،نیز یہ روزے ان شاء اللہ باعث اجر وثواب ہیں۔عن أبي أیوب الأنصاري رضي اللّٰہ عنہ، أنہ حدثہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:«من صام رمضان ثم أتبعہ ستا من شوال، کان کصیام الدہر».(الصحیح لمسلم، کتاب الصوم، باب استحباب صوم ستۃ من شوال اتباعا لرمضان: ١/٣٦٩، قدیمی)
’’وندب تفریق صوم الست من شوال ولا یکرہ التتابع علی المختار‘‘.(تنویر الأبصار مع الدر المختار، کتاب الصوم: ٢/٤٣٥، سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی