سمندری جہازی میں قصر نماز پڑھیں گے،یا مکمل ؟

سمندری جہازی میں قصر نماز پڑھیں گے،یا مکمل ؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہم لوگ ایک سال کے کنٹریکٹ پر جہاز پر جاتے ہیں،یعنی جہاز پر پورے ایک سال رہنے کی ہماری نیت ہوتی ہے، جہاز پر بھی بالکل گھر کی طرح آرام ہوتا ہے، تمام ضروریات زندگی میسر ہوتی ہیں،جہاز کئی کئی دنوں اور مہینے مہینے بھر تک چلتا رہتا ہے ،ایسی صورت میں:

۱۔ جہاز میں ہمارا شمار مقیمین میں ہوگا، یا مسافروں میں؟

۲۔ نماز قصر پڑھیں گے، یا پوری؟

۳۔ فرض نماز کی قصر پڑھنے کی صورت میں سنن ونوافل کے بارے میں کیا حکم ہے جب کہ ہمارے پاس ٹائم بھی کافی ہوتا ہے ۔

۴۔ اگر سنن ونوافل کو چھوڑ کر قضائے عمری پڑھ لی جائیں تو کیا حکم ہے؟

جواب

جہاز چوں کہ قابل اقامت نہیں ہے ،اس لیے جہاز پر رہنے والے اور کام کرنے والے جب تک جہاز میں رہیں گے ،مسافر ہی کہلائیں گے مقیم نہیں ہوں گے،سمندر اور کشتی ( اس طرح جہاز)محل اقامت نہیں ہیں،اس لیے جہاز پر کام کرنے والے جب تک اپنے وطن واپس  نہ آجائے،وہ مسافر ہی رہیں گے گے اور قصر کریں گے،اب بالترتیب سوالوں کے جوابات ملاحظہ کریں:

۱۔ مسافروں میں۔

۲۔ قصرنمازپڑھیں گے۔

۳۔ حنیفہ کا مذہب ہے کہ اگر مسافر حالت امن وقرار میں ہو اور عجلت  میں نہ ہو تو سنن رواتب کو ادا کرے۔

۴۔ آپ کےپاس وقت بھی کافی ہوتا ہے تو سنن کے بعد قضاء عمری پڑھ لیا کریں، قضا نمازوں کے لیے سنتوں کا چھوڑنا جائز نہیں ہے،البتہ نوافل چھوڑ کر ان کی جگہ قضا عمری پڑھنا بہتر ہے۔

''(أو) نوی (فیہ)(لکن فی غیر صالح)أو کنحو جزیرۃ قال ابن عابدین۔ قولہ: فیہ) أی فی نصف شھر۔۔۔قال فی المجتبی: والملاح مسافر إلا عند الحسن وسفینتہ ایضاً لیست بوطن، ظاہرہ ولو کان مالہ وأھلہ معہ فیھا ثم رأیتہ صریحا فی المعراج.(الدر المختار،کتاب الصلوٰۃ ٢/١٢٥،١٢٦،سعید)

''(أَوْ لَمْ یَکُنْ مُسْتَقِلًّا بِرَأْیِہِ) کَعَبْدٍ وَامْرَأَۃٍ (أَوْ دَخَلَ بَلْدَۃً وَلَمْ یَنْوِہَا) أَیْ مُدَّۃَ الْإِقَامَۃِ (بَلْ تَرَقَّبَ السَّفَرَ) غَدًا أَوْ بَعْدَہُ (وَلَوْ بَقِیَ) عَلَی ذَلِکَ (سِنِینَ) (قَوْلُہُ وَلَمْ یَنْوِہَا) وَکَذَا إذَا نَوَاہَا وَہُوَ مُتَرَقِّبٌ لِلسَّفَرِ کَمَا فِی الْبَحْرِ لِأَنَّ حَالَتَہُ تُنَافِی عَزِیمَتَہُ.''(الدر المختار مع رد، کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ المسافر، ٢/١٢٦،سعید)

''(وَأَمَّا)الْمَکَانُ الصَّالِحُ لِلْإِقَامَۃِ: فَہُوَ مَوْضِعُ اللُّبْثِ وَالْقَرَارِ فِی الْعَادَۃِ نَحْوُ الْأَمْصَارِ وَالْقُرَی، وَأَمَّا الْمَفَازَۃُ وَالْجَزِیرَۃُ وَالسَّفِینَۃُ فَلَیْسَتْ مَوْضِعَ الْإِقَامَۃِ، حَتَّی لَوْ نَوَی الْإِقَامَۃَ فِی ہَذِہِ الْمَوَاضِعِ خَمْسَۃَ عَشَرَ یَوْمًا لَا یَصِیرُ مُقِیمًا کَذَا رُوِیَ عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ.'' (بدائع الصنائع:١/٩٨، سعید)

''(وَیَأْتِی) الْمُسَافِرُ (بِالسُّنَنِ) إنْ کَانَ (فِی حَالَ أَمْنٍ وَقَرَارٍ وَإِلَّا) بِأَنْ کَانَ فِی خَوْفٍ وَفِرَارٍ (لَا) یَأْتِی بِہَا .''(الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر ٢/١٣١،سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی