سجدے کی حالت میں انگلیاں زمین پر رکھنے کی شرعی حیثیت

سجدے کی حالت میں انگلیاں زمین پر رکھنے کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل کچھ مخصوص مساجد میں ایک چھوٹا سا پمفلٹ چپکا ہوا ہوتا ہے، جس میں سجدے کی حالت میں پیروں کی انگلیوں کے نشان کے متعلق فتویٰ اور تصویر ہے،میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی دوران نماز سیدھے پاؤں کی تین انگلیاں زمین پر لگی رہنا ضروری ہیں، اگر نہیں تو گنجائش کہاں تک ہے؟

جواب

بوقت سجدہ دونوں پیروں میں سے کسی ایک پیر کا کوئی بھی جزء  بمقدار ایک مرتبہ سبحان اﷲ کہنے کے زمین پر رکھنا صحیح اور راحج قول کے مطابق واجب ہے، اگر پورے سجدے میں بقدر ایک تسبیح کے دونوں پاؤں میں سے کسی ایک کاکوئی جز ء زمین پر رکھ دیا تو واجب ادا ہو جائے گا ،لیکن اگر اتنی مقدر کسی پیر کا ایک جز ءبھی زمین پر نہیں رکھا تو پھر نماز کا اعادہ واجب ہو گا اور پورے سجدے میں دونوں پاؤں زمین پر رکھنا اور پیر کی انگلیوں کو قبلہ رخ کرنا سنت مؤکدہ ہے۔

''(وَمِنْہَا السُّجُودُ) بِجَبْہَتِہِ وَقَدَمَیْہِ، وَوَضْعُ إصْبَعٍ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا شَرْطٌ''.(الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ ١/٤٤٧، سعید)

''وفیہ یفترض وضع أصابع القدم وَلَوْ وَاحِدَۃً نَحْوَ الْقِبْلَۃِ وَإِلَّا لَمْ تَجُزْ، وَالنَّاسُ عَنْہُ غَافِلُونَ.''

(قَوْلُہُ نَحْوُ الْقِبْلَۃِ) قَالَ فِی الْبَزَّازِیَّۃِ: وَالْمُرَادُ بِوَضْعِ الْقَدَمِ ہُنَا وَضْعُ الْأَصَابِعِ أَوْ جُزْء ٍ مِنْ الْقَدَمِ وَإِنْ وَضَعَ أُصْبُعًا وَاحِدَۃً أَوْ ظَہْرَ الْقَدَمِ بِلَا أَصَابِعَ، إنْ وَضَعَ مَعَ ذَلِکَ إحْدَی قَدَمَیْہِ صَحَّ وَإِلَّا لَا. اہـ. قَالَ فِی شَرْحِ الْمُنْیَۃِ بَعْدَ نَقْلِہِ ذَلِکَ: وَفُہِمَ مِنْہُ أَنَّ الْمُرَادَ بِوَضْعِ الْأَصَابِعِ تَوْجِیہُہَا نَحْوَ الْقِبْلَۃِ لِیَکُونَ الِاعْتِمَادُ عَلَیْہَا،وَإِلَّا فَہُوَ وَضْعُ ظَہْرِ الْقَدَمِ، وَقَدْ جَعَلُوہُ غَیْرَ مُعْتَبَرٍ.(الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ ١/٥٠٠،٤٤٩، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی