زوجہ ،دو بیٹے اور پانچ بیٹیوں میں میراث کی تقسیم

زوجہ، دو بیٹے اور پانچ بیٹیوں میں میراث کی تقسیم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے والد صاحب فوت ہوگئے تھے، اور ابھی ہمیں یہ گھر اور منڈی تقسیم کرنا ہے۔ ہم دو بھائی ہیں، پانچ بہنیں ہیں اور والدہ ہے ۔
گاؤں میں گھر ہے 9مرلےکا، اور ایک منڈی ہے 13 مرلے، یہ تقسیم کرنا ہے۔
والد مرحوم :عبد الاحد
زوجہ: زینت
دو بیٹے: نور الاحد، محمد صدیق
پانچ بیٹیاں:محسن وراء، امین الوراء، عابدہ، مسرد، طائرہ

جواب

صورت مسئولہ میں سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ میں سے ان کے کفن ودفن کے درمیانی اخراجات نکالے جائیں، بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے تبرعاً ادا نہ کیے ہوں، اس کے بعد اگر ان کے ذمے واجب الاداء قرض یا دیگر مالی واجبات ہوں، تو ادا کیے جائیں، پھر اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو ،تو اس کو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی میں سے نافذ کردیا جائے، پھر بقیہ ترکہ کو ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے۔
تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کے 9 مرلوں کے 72 حصے کردیے جائیں جن میں سے 9 حصے مرحوم کی بیوہ زینت کو، 14، 14 حصے مرحوم کے دو بیٹوں نور الاحد اور محمد صدیق میں سے ہر ایک کو، اور 7، 7 حصے مرحوم کی پانچ بیٹیوں محسن الوراء، امین الوراء، عابدہ، مسرد اور طاہرہ میں سے ہر ایک کو دیے جائیں۔
فیصدی لحاظ سے مرحوم کی بیوہ زینت کو% 12.5، دو بیٹوں نور الاحد اور محمد صدیق میں سے ہر ایک کو%19.44 اور پانچ بیٹیوں محسن الوراء، امین الوراء، عابدہ، مسرد اور طاہرہ میں سے ہر ایک کو%9.72 حصے دیے جائیں، اسی طرح منڈی کے 13 مرلوں کے بھی 72 حصے کرکے مذکورہ طریقے کے مطابق ورثاء کے درمیان تقسیم کیے جائیں۔

نمبر شمار ورثاء کے نام عددی حصہ فیصدی حصہ
1. زینت 9 12.5%
2. نور الاحد 14 19.44%
3. محمد صدیق 14 19.44%
4. محسن الوراء 7 9.72%
5. امین الوراء 7 9.72%
6. عابدہ 7 9.72%
7. مسرد 7 9.72%
8. طاہرہ 7 9.72%

لما في التنزیل:
«یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین».(سورۃ النساء: ١١)
وفي السراجي:
’’قال علماؤنا رحمھم اللہ: تتعلق بترکۃ المیت حقوق أربعۃ مرتبۃ.الأول: یبدأ بتکفینہ وتجھیزہ من غیر تبذیر ولا تقتیر، ثم تقضی دیونہ من جمیع ما بقی من مالہ، ثم تنفذ وصایاہ من ثلث ما بقي بعد الدین، ثم یقسم الباقي بین ورثتہ بالکتاب والسنۃ وإجماع الأمۃ‘‘.
وفیہ أیضا:
’’أما للزوجات فحالتان:الربع للواحدۃ فصاعدۃ عند عدم الولد وولد الابن وإن سفل، والثمن مع الولد أو ولد الابن وإن سفل‘‘.(فصل في النساء: ٣٢:البشری)
وفیہ أیضا:
’’وأما البنات الصلب فأحوال ثلاث: النصف للواحدۃ، والثلثان للاثنتین فصاعدۃ، ومع الابن للذکر مثل حظ الأنثیین، وھو یعصبھن‘‘.(فصل في النساء: ٣٢، ٣٣:البشری).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/122