کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کی شادی دونوں خاندانوں کی رضامندی سےہوئی، لیکن آپس میں میاں بیوی ازدواجی بندھن کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکے، چنانچہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے کہ پہلے اپنی زوجہ کو زبانی طلاق دی، لیکن زوجہ نے مطالبہ کیا اور دباؤ ڈالا کہ دو گواہوں کی موجودگی میں مجھے طلاق دی جائے اور طلاق کا اعلان تحریری طور پر کیا جائے ،چنانچہ شوہر نے دو گواہوں کی موجودگی میں تحریری طور پر اپنی زوجہ کو طلاق دی۔
اب طلاق کی مذکورہ صورت میں شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
وضاحت:مستفتی سے پوچھنےپر معلوم ہوا کہ خاوند نے پہلے زبانی طلاق دی، پھر تحریرا طلاق دی۔
صورت مسئولہ میں بیان کردہ صورت حال اگر حقیقت پر مبنی ہے اور اس میں کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا، تو بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوچکی ہیں اور شوہر کا زبانی طلاق دینے کے وقت سے عدت شروع ہوچکی ہے، لہٰذا عدت پوری ہونے سے پہلے پہلے شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے، عدت گزرنے کے بعد دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے بیوی کی رضامندی سے تجدید نکاح ضروری ہے۔لما في الرد:
’’قولہ: (کتب الطلاق) قال في الھندیۃ: الکتابۃ علی نوعین: مرسومۃ، وغیر مرسومۃ........ وإن کانت مرسومۃ یقع الطلاق نوی أو لم ینو‘‘. (کتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالکتابۃ:442/4، رشیدیۃ)
وفیہ أیضاً:
’’(ھو) لغۃ: رفع القید.... وشرعاً (رفع قید النکاح في الحال) بالبائن (أو المآل) بالرجعي (بلفظ مخصوص) ھو ما اشتمل علی الطلاق.......‘‘. (کتاب الطلاق:414/4، رشیدیۃ)
وفي التبیین :
’’الصریح ھو کأنت طالق ومطلقۃ وطلقتک، وتقع واحدۃ رجعیۃ وإن نوی الأکثر أو الإبانۃ أو لم ینو شیئاً‘‘. (کتاب الطلاق: 3/3، دارالکتب العلمیۃ بیروت).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:184/76