کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک روزہ دار شدت گرمی کی وجہ سے تولیہ پانی میں بھگو کر بدن پر لپیٹ لیتا ہو، یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے باربار نہاتا ہو ،یا کسی طریقے سے ٹھنڈک حاصل کرتا ہو، کیا اس کا اس طرح کرنا درست ہے ؟ اس کی وجہ سے روزہ میں کوئی نقص تو واقع نہیں ہوتا؟
روزہ دار کا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے کپڑا پانی میں تر کرکے بدن پر لپیٹنا ،یا غسل کرنا بلاکراہت جائز ہے، اس طرح کرنے سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔وکذا لا تکرہ حجامۃ وتلفف بثوب مبتل ومضمضۃ أو استنشاق أو اغتسال للتبرد عند الثانی، وبہ یفتی. شرنبلالیۃ عن البرہان.
وفي الرد:قولہ: (وبہ یفتی)؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صب علی رأسہ الماء، وھو صائم من العطش أو من الحر. رواہ أبو داود. وکان ابن عمر ـ رضی اللّٰہ عنہما ـ یبل الثوب ویلفہ علیہ وہو صائم. ولأن ہذہ الأشیاء بہا عون علی العبادۃ ودفع الضجر الطبیعي. (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، مطلب في حدیث التوسعۃ علی العیال: ٢/٤١٩،سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی