کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں عموماً لوگ رمضان المبارک میں سحری کے وقت اذانوں کے ہوتے ہوئے بھی کھانا پینا جاری رکھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اذان کے ختم ہونے تک کھانا پینا جائز ہے کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟ یا اس سے روزے میں خلل واقع ہوتا ہے؟ اور اذان کے وقت کھانے والے کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟ مفصل ومدلل جواب دے کر عنداﷲ ماجور ہوں۔
لوگوں کا اذان کے دوران کھانا پینا غلط اور مفسدِ صوم ہے، لیکن قضاء واجب ہے کفارہ نہیں، ہاں اگر یہ امر یقینی ہو کہ اذان انتہائے وقت سحر سے پہلے ہوئی ہے تو ایسی صورت میں روزہ تو درست ہو جائے گا، لیکن اذان واجب الإعادہ ہو گی۔
لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا، بلکہ اذان وقت کے اندر ہی دی جاتی ہے، اس لیے اذان کے دوران کھانے ، پینے سے اجتناب بہرحال لازم ہے، احتیاط تو اس میں ہے کہ اذان سے چند منٹ پہلے ہی کھانا پینا بند کر دیا جائے۔
أو تسحر أوجامع في طلوع الفجر وھو طالع لا کفارۃ علیہ للشبہۃ لأن الأصل بقاء اللیل ویأثم إثم ترک التثبت مع الشک.(مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الصوم: ٦٧٥٨، قدیمی)
وإذا تسحر وہو یظن أن الفجر لم یطلع، فإذا ہو قد طلع ۔۔۔۔ أمسک بقیۃ یومہ۔۔۔۔وعلیہ القضاء ولا کفارۃ علیہ.''(الھدایۃ،کتاب الصوم باب ما یوجب القضاء الکفارۃ: ١/٢٢٥، شرکت علمیۃ، ملتان)
تقدیم الأذان علی الوقت في غیر الصبح لا یجوز اتفاقا، وکذا في الصبح عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی، وإن قدم یعاد في الوقت، ہکذا في شرح ''مجمع البحرین'' لابن الملک، وعلیہ الفتوی، ہکذا في ''التتارخانیۃ''. (الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول: ١/٥٣، رشیدیۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی