کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں کہ
۱۔ اگر رضاعت ثابت ہونے کے بعد فرقت کا کیا طریقہ ہوگا؟
۲۔ اور اس صورت میں مہر کی تفصیل کیا ہوگی؟براہِ کرم شریعت کی روشنی میں مندرجہ بالا سوالات کے جوابات مع الدلائل عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں ۔
۱۔علیحدگی کی صورت یہ ہوگی کہ شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ“ میں نے تجھے چھوڑ دیا ”،یا یہ کہ“ ہمارے درمیان جو رشتہ زوجیت ہے میں اس کو ختم کرتاہوں”۔
۲۔ صورتِ مسئولہ میں مہرمثل یعنی اس عورت کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں ،جو مالداری ،خوبصورتی،دین ،عمر،زمانہ اور کنواری وغیرہ ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کے جتنا مہر واجب ہوگا۔
وفي الدر المختار:
"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطئ بها لا يكون زنا".
وفي الشامية:
"أن النكاح لا يرتفع بحرمة الرضاع والمصاهرة بل يفسد.... وفي الفاسد لا بد من تفريق القاضي أو المتاركة بالقول في المدخول بها، وفي غيرها...(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية......وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك".(كتاب النكاح ،فصل في المحرمات، 337،ط:سعيد)
وفي الدرمع الرد:
(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود(بالوطئ) في القبل (لا بغيره) كالخلوة لحرمة وطئها ".(كتاب النكاح،باب نكاح الفاسد،3131،دارالفكر).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 172/279،281